"ZIC" (space) message & send to 7575

ہماری سبزیاں

آلو
جس طرح آم پھلوں کا بادشاہ ہے آلو کو بھی سبزیوں کا بادشاہ بلکہ شہنشاہ کہہ سکتے ہیں۔ سازش کی طرح یہ سطح زمین سے نیچے ہی پلتا رہتا ہے۔ گوشت کے علاوہ یہ ہر سبزی میں ملا کر پکایا جا سکتا ہے۔ ہمارے ایک وزیر اعلیٰ پنجاب عارف نکئی آلو گوشت کے اس قدر رسیا تھے کہ آلو گوشت ان کی چھیڑ ہی بن گیا تھا۔ چپس کی صورت میں اسے اور بھی چار چاند لگا دیے گئے ہیں۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
جسے کُتّے نہیں قبولتے ہیں 
شعر ہے وہ سڑا ہوا آلو
کچالو اس کا یوں سمجھیے کہ دور کا رشتے دار ہے۔ کثیرالاستعمال سبزی ہے جسے آلہء ضرب کے طور پر بھی استعمال کر سکتے ہیں‘ خصوصاً جب کسی کو دور سے ضرب پہنچانا مطلوب ہو۔ سموسوں کا پیٹ بھرنا مقصود ہو تو یہی کام آتا ہے۔ اہل فارس اسے سیبِ زمینی کہتے ہیں۔
کریلا
اسے زیادہ کڑوا کرنا مطلوب ہو تو نیم پر چڑھا دیا جاتا ہے جیسے کہ ایک کریلا اوپر سے نیم چڑھا۔ بعض علما نیم چڑھا سے ادھ پکا بھی مراد لیتے ہیں۔ شاید زیادہ صحیح بھی یہی ہے کہ کریلے گوشت صرف گوشت کو کڑوا کرنے کے لیے پکایا جاتا ہے۔ اسے خصوصی اور پسندیدہ ڈش بھی کہا جاتا ہے۔ پنجابی کا شعر ہے ؎
کلیاں بہہ کے کھاندا
ظفرا یار کریلے
اس کی کڑواہٹ کم کی جا سکتی ہے‘ ختم نہیں کی جا سکتی۔ بیل کے ساتھ لگتا ہے کیونکہ پودا اس کا نخرہ نہیں سہار سکتا۔ دو چار کریلوں میں اگر ایک کلو پیاز ڈال کر پکایا جائے تو پیاز بھی کریلے ہی بن جاتے ہیں۔ اس نادرِ روزگار سبزی کے بارے میں اگر تفصیل سے جاننا مقصود ہو تو سیدّہ سیفو کا مضمون ''ظفر اقبال کے کلام میں سبزیوں اور پھلوں کا ذکر‘‘ پڑھیے۔
بھنڈی
فی الحال یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ بھنڈی زیادہ لیسدار ہوتی ہے یا اروی‘ البتہ تحقیق جاری ہے۔ انگریزی میں اسے لیڈی فنگر کہتے ہیں جس پر وہاں لیڈیز نے بہت احتجاج کیا لیکن بے دو۔ اس سے گوند یا گم کا کام بھی لیا جا سکتا ہے اور ایک بھنڈی سے کاغذوں کا ایک دستہ جوڑا جا سکتا ہے۔ یہ شعر دیکھیے: ؎
روٹی تھی اس کے تھیلے میں
روٹی پر بھنڈی توری تھی
اسے کھا کر بعض اوقات دانت جُڑ بھی جاتے ہیں جنہیں تھوڑی کوشش سے کھولا بھی جا سکتا ہے تاکہ باقی ماندہ بھنڈی بھی زہر مار کی جا سکے لذیذ سبزیوں میں شمار ہوتی ہے بشرطیکہ گوشت کے ساتھ ملا کر پکائی گئی ہو تاہم سارا کریڈٹ گوشت ہی کو دینا پڑتا ہے۔ اس کا نام خاصا بھونڈا ہے جسے انگریزوں نے اتنا خوبصورت بنا دیا۔
پیاز
سو پیاز کھانے ہوں تو ساتھ سو جوتے بھی کھانا پڑتے ہیں‘ اس لیے عقلمند لوگ اتنے ہی پیاز کھاتے ہیں جتنے جوتے برداشت کرنا پڑتے ہوں۔ بین الاقوامی سبزیوں میں اس کا شمار ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی سالن اس کے بغیر نہیں بن سکتا۔ اس کا رنگ پیازی ہوتا ہے۔ اگر اسے کاٹتے وقت زار و قطار آنسو نہ بہہ نکلیں تو اسے ناقص سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ واحد غائب قسم کی سبزی بھی ہے کیونکہ اس کے چھلکے اتارتے جائو تو بیچ میں سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوتا۔ اسے سعیٔ رائگاں بھی کہتے ہیں۔ زیادہ عیاشی مقصود ہو تو سالن میں ڈالنے کے علاوہ اسے کچا بھی کھایا جا سکتا ہے اور کئی دن تک منہ سے اس کی خوشبو آتی رہتی ہے۔ اس سے پرفیوم بنانے کے تجربات بھی ہو رہے ہیں۔ اسے کاٹنے سے جو آنسو نکلتے ہیں انہیں اشکِ پیازی بھی کہتے ہیں۔ سند کے لیے علامہ اقبال کا شعر موجود ہے۔ خالد حسن کی مشہور کتاب کا نام ہے''میرے پیاز مجھے واپس دے دو‘‘! (انگریزی سے ترجمہ)
گوبھی
گوبھی کے بارے میں قول زریں یہ ہے کہ اسے جس نام سے بھی پکارا جائے یہ گوبھی کا پھول ہی رہتا ہے۔ اسے کھلی گوبھی بھی کہنا چاہیے کیونکہ ایک بند گوبھی بھی ہوتی ہے‘ حتیٰ کہ گانٹھ گوبھی بھی۔ ملکِ عزیز میں چونکہ شرح تعلیم بہت کم ہے اس لیے زیادہ تر لوگوں کا شمار گوبھیوں ہی میں ہوتا ہے۔ آلو کے علاوہ گوشت کے ساتھ بھی پکائی جاتی ہے۔ سلاد کے طور پر کچی بھی کھائی جا سکتی ہے بلکہ کریلوں کے علاوہ ہر قسم کی سبزی بطور سلاد استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس قدر سفید براق کوئی سبزی نہیں ہوتی۔ دھلی دھلائی اور دودھ کی طرح سفید۔ شاید یہ واحد سبزی ہے جس پر میں نے شعر نہیں کہا اور یہ میری دست بُرد سے محفوظ رہی ہے کیونکہ اسے کھا کر اور کچھ بھی کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ نہ صرف آلۂ ضرب بلکہ ڈھال کے طور پر بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ اسے پھول کہنا جائے خود ایک ستم ظریفی ہے کیونکہ ٹھیک ٹھاک پل جائے تو تربوز کے ہم وزن بھی ہو سکتی ہے۔
گاجر
اسے کاٹنا ہو تو گاجر مولی کی طرح کاٹتے ہیں۔ جس نے گاجریں کھائیں ہوں‘ پیٹ درد کا شکار بھی وہی ہوتا ہے۔ پاناما کیس میں شاید گاجریں کھانے کا حساب بھی لگایا جائے۔ ایک محاورے کا استعمال دیکھیے ؎
دی ہیں یہ گاجریں خدا نے
رکھ ہاتھ میں صبح و شام رمبا
اس کے مرکزی حصے کو نامعلوم وجوہ کی بنا پر کیل کہا جاتا ہے حالانکہ اسے دیوار میں ٹھونکا نہیں جا سکتا۔ اصل میں تو یہ سلاد میں استعمال کرنے کی چیز ہے‘ لیکن بدذوقی کے اظہار کے لیے اسے پکا کر بھی کھایا جاتا ہے۔ اس کا شریفانہ استعمال بھی ہے جس میں گاجر کا حلوہ‘ گاجر کا اچار اور گاجر کا جوس بطور خاص ہیں۔ گجریلا یعنی گاجر کی کھیر ان سب کے علاوہ ہے۔ یہ واحد سبزی ہے جو دکان پر پڑی ہوئی اچھی لگتی ہے۔
ٹماٹر
پیاز کی طرح اس کے بغیر بھی ہنڈیا نہیں بنتی۔ پھیری والے صدا لگاتے ہیں تو اسے لال ٹماٹر کہتے ہیں‘ حالانکہ صرف ٹماٹر کہنا ہی کافی ہے کیونکہ نیلا‘ پیلا یا کالا ٹماٹر نہیں ہوتا۔ سلاد کے طور پر بھی مستعمل ہے لیکن زیادہ تر اسے کیچپ کی صورت میں ضائع کر دیا جاتا ہے۔ انگریزی میں اس کا اچھا بھلا نام بگاڑ کر ٹوماٹو کر دیا گیا ہے۔ ایک مطلع دیکھیے:
لالو لال ٹماٹر
اس کے گال ٹماٹر
آلو اور پیاز کے بعد اس کا استعمال تیسرے نمبر پر ہے اور‘ یہ بھی اندازہ ہی ہے کیونکہ اس بارے صحیح تخمینہ لگانا ممکن ہی نہیں۔ ع
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
آج کا مطلع
مدت سے کوئی بات کوئی گھات ہی نہیں 
کیا عشق ہے کہ شوقِ ملاقات ہی نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں