... اگر چور کا سزا پانا یہاں صرف ہندوستانی فلم حاصل کرنے پر سزا پانا بن جائے تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ کیا عجب ہمارا اخباری حلقہ بھی انہی حرکتوں کا مرتکب ہوتا ہو۔ اگر تمہارا یہ محض وہم ہی ہے اور اب تو ہمارے ایک بڑے اخبار میں مستقل ایک کالم آپ کے اخبارات کی خبروں پر مشتمل چھپ رہا ہے۔ ہم آپ کی خبریں آپ ہی کے الفاظ میں چھاپتے ہیں۔ کاش آپ کے اخبار بھی پوری خبر نقل کر دیتے تو آپ کے انداز فکر میں تبدیلی ممکن تھی۔ بھٹو صاحب کے نام سے وہاں دو کتابچے بہت معروف ہیں۔ رئیس صاحب نے کہا‘ خرید لینا۔ دیکھیں ہے کیا۔ میں نے 'میرے دوست میرے قاتل‘‘ اور ''پاکستان میرے قتل کے بعد‘‘ ایک ٹھیلے والے کے پاس دیکھیں اور وہاں کھڑے کھڑے ورق گردانی کر لی۔ جیل کی دیواریں پھاند کر اگر کوئی چیز نکل سکتی ہے تو اسے ناممکن تو نہیں کہا جا سکتا‘ لیکن مواد بتا رہا تھا کہ نہ یہ زبان بھٹو صاحب کی ہے اور نہ بھٹو صاحب کا بیان۔ ایک رسالے میں صدر پاکستان پر کچھ کیچڑ اچھالی گئی تھی۔ میں نے کتاب فروش سے پوچھا: تم نے کبھی دیکھا پاکستانی اخبار رسالوں میں ہندوستان کے صدر یا وزیر اعظم کے لیے ایسی عامیانہ زبان استعمال کی گئی ہو۔ بولا: اجی آپ نے کیا دیکھا ہے یہاں تو اندرا گاندھی کے بارے میں کیا کیا کچھ نہیں لکھا جاتا۔ فاحشہ تک تو لکھ دیا لکھنے والوں نے اور نام لے لے کر ''منظورِ نظر‘‘ بتائے گئے۔ یہی نہیں جلسوں میں
سی آئی ڈی کو پکڑ پکڑ کر لوگ یہ کہتے ہیں‘ تم ہماری جاسوسی کیا کرتے ہو۔ ہم یہ چاہتے ہیں‘ وہ چاہتے ہیں۔ جا کر اندرا سے کہو‘ لکھ لو‘ ہمارے سامنے لکھو۔ اچھا یہ بھی ہوتا ہے تو کیا وزیر اعظم تک یہ باتیں پہنچتی بھی ہیں؟ بڑے اعتماد سے بولا: بالکل سو فیصدی پہنچتی ہیں۔ السٹریٹڈ ویکلی آف انڈیا بمبئی کا مشہور انگریزی جریدہ ہے۔ میں نے ٹٹولا۔ تصاویر کی بھرمار دیکھی تو ایک ایک صفحہ دیکھتا چلا گیا۔ باب المراسلات میں ایک تصویر جنرل ضیاء الحق صاحب کی نظر سے گزری۔ انگریزی کیا پلے پڑتی زور ڈال کر دماغ پر چند سطری عوامی مراسلے سے میں نے یہ پایا کہ ضیا کیوں آ رہا ہے‘ یہ تو قاتل ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہندی صحافت پاکستان کو رگیدنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ وہ مراسلہ کسی اہم ہندوستانی کے قلم سے نہ تھا‘ لیکن وہ بھی رسالے کا حصہ ہے۔ ہندوستانی ہفت روزے اور ماہنامے مجھ سے کیونکر پڑھے جاتے‘ مگر دیکھے خوب جی بھر کے۔ یہ سیر اس لیے بھی کی جاتی رہی کہ نسوانی حسن کے بے پناہ مرقعے جگہ جگہ بکھرے پڑے تھے۔ یورپ کے ''پلے بوائے‘‘ کے ہم پلہ ہیں وہ سب۔ انگریزی زبان میں جنسی جریدے نہایت ریشمی بڑھیا کاغذ پر چھپے ہوئے عام ہیں اور شراب کی طرح ہر گھر میں ہیں۔ مسلمان اخبار کے علاوہ پوسٹروں سے بھی کام چلاتا ہے۔ ہندی مسلمان بڑا بے جگرا ہے‘ اکثریت سے خوفزدہ تو ہے دل دھڑکتا ہے مگر زبان کبھی نہیں تھرتھراتی۔ بنگلہ دیش کے وجود
میں آنے کے بعد زیادہ بے باک ہوا ہے۔ پہلے بھی کچھ کم نہ تھا۔ ٹھن جائے تو قدم سبھی کے فساد زدہ علاقے کی طرف بڑھیں گے کسی اور طرف نہیں۔ مجھے راہ چلتوں نے بھی بتایا اور ہندو مسلم مشترک محفلوں میں بھی گفتگو یہی رہی۔ اکثریت کے جورِ ناروا اور جبر و تشدد نے ہمیں دل برداشتہ کیے رکھا ہے اس لیے سوچنے کا ایک انداز یہ بھی تھا۔ یہاں اچھوت بن کر کب تک رہنا ہو گا‘ دیر سویر ہمیں جانا ہو گا اس لیے کعبہ ٔ مقصود پاکستان نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ سر چھپانے اور زندگی کرنے کا ایک تو بہانہ ہو کوئی تو ٹھکانہ ہو۔ لیکن اب ہم کو یہیں مرنا ہے‘ یہیں جینا ہے۔ اب ہم نے نئے نئے مکان بھی تعمیر کر لیے ہیں اور اللہ توفیق دیتا ہے تو بولیاں دینے والوں میں ہم پیش پیش بھی ہیں۔ اب ہمیں فرقہ وارانہ فسادات سے بھاگنے اور کمزوری دکھانے کی ضرورت نہیں
پڑے گی۔ اکھڑے ہوئے دلوں کو ہم نے سنبھال لیا ہے۔ ہمارے کاروباری معاملات میں اب پہلے سے زیادہ وسعت بھی آئی ہے اور استحکام بھی پیدا ہوا ہے۔ ہم نے اپنے جائز مطالبات میں پہلے سے زیادہ زور اور اثر پیدا کر لیا ہے۔ کچھ یہ بھی ہے کہ اندرا جی نے ہمیں دھتکار کر پایا کچھ بھی نہیں کھویا سبھی کچھ۔ وزارت عظمیٰ تک ہاتھ سے جاتی رہی۔ قومی فلاح و بہبود کے لیے ہمارے فیصلوں میں وطن دشمنی کا شائبہ نہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ اس کے باوجود ہمیں ایک خاص نظر سے دیکھا جائے! آخر کیوں؟ ہماری وفاداریوں کو مشکوک ظلم و ستم بنا سکتے ہیں ورنہ کون اپنا گھر چھوڑ کر کہیں جاتا ہے۔ مسلمان ممالک اور بھی تو ہمارے پڑوس میں ہیں۔ اگر ہم جاسوس ہیں وطن دشمن ہیں تو ہماری ہمدردیاں تو پورے عالم اسلام کے لیے ہونا چاہئیں‘ ایک حد تک ہیں بھی اور رہیں گی بھی... کیا مسلم لیگ کی حمایت کرنے والے صوبے خصوصاً یو پی سے کوئی مسلمان ہجرت کرنے والا تھا۔ ہرگز نہیں ہمیں مار مار کر بھگایا‘ بے عزت‘ بے آبرو کیا گیا۔ کیا غیر مسلم ممالک چین روس امریکہ میں مسلمان نہیں بستے۔ پاکستان کی حمایت ترک وطن کی نشاندہی کرے یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ کیا ہماری ہمدردیاں ویت نام اور ویت نامی حریت پسندوں‘ یوگو سلاوی مظلوم نہتوں اور پولینڈ کے جیالوں اور امریکی کالوں سے وابستہ نہیں رہیں‘ تو کیا ہمیں ویت نام یوگو سلاویہ پولینڈ امریکہ بدر کر دینا چاہیے۔
کوئی نہیں بناتا نہ بنائے لیکن گھر اور ملنے جلنے والوں نے رئیس صاحب کے سفرِ ہند کو تاریخی سفر کا رنگ دے دیا تھا۔ رئیس صاحب ظاہر ہے عام آدمی تو ہیں نہیں۔ سفر ویسے بھی قریب ہی کا کیوں نہ ہو تھوڑی بہت اہمیت تو رکھتا ہے اور یہ تو دور دراز کا سفر نہ سہی ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفر تو تھا۔ ایسے ملک کا سفر جس سے تصادم کی فضا پینتیس برس سے قائم ہے اور جانے کب تک رہے گی یہ کیفیت ۔ تصادم ہوتے بھی رہے ہیں‘ زوردار۔ سفر کی تاریخ جوں جوں قریب آ رہی تھی تبصروں میں اضافہ ہوتا چلا گیا حضرت سید محمد تقی مذبذب اور متردد بھی تھے۔ فرمایا: ہاتھوں ہاتھ لیے جائیں گے۔ رئیس صاحب تو ممکن ہے نہ لیے جائیں لیکن وہاں دس کروڑ اور بھی تو موجود ہے۔ تقی صاحب کے فراہم کردہ یہ اعداد و شمار بھارت سرکار کے اعداد و شمار ہیں۔ وہاں تو مسلمان کہتا ہے ہم تئیس کروڑ ہیں۔ تئیس کروڑ اقلیت کچھ کھیل تو نہیں لیکن اس کی بدحالی خوشحالی کے ساتھ ساتھ ہے۔ پیٹ بھرنے کے لیے بقدر ظرف و نظر ہاتھ پائوں ہر شخص مارنے پر مجبور ہے۔ مالدار مسلمان بھی میں نے دیکھے‘ مفلس اور قلاش بھی۔ ایک بات‘ ایک چیز سب میں مشترک تھی اور وہ ہے خوفزدگی۔ ہندو اکثریت کو دوسری نہیں صرف مسلمان اقلیت سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ اس کے اظہار میں دو ایک جماعتیں تو بیباک ہیں‘ باقی گھٹی ہیں۔ کھل کر کوئی کہے نہ کہے دل کا آئینہ چہرہ ہے‘ اور وہ سب کچھ بتا دیتا ہے۔ ایک فوٹو گرافر تصویر کش کسی جستجو میں پرانی دلی کے مختلف تنگ و تاریک محلّوں اور گلیوں میں مارا مارا پھرتے دیکھنے کا اتفاق ہوا...
آج کا مقطع
زباں کو سر پہ بٹھائے بھی ہم پھرے ہیں‘ ظفر
سخن کیا ہے زباں پر سوارہو کر بھی