سنو بیٹے ابلو تیسرے دن کی کہانی ہی سمجھو؛ البتہ کچھ گڑ بڑ گڈ مڈ سڑ بڑ چلے گی۔ اب فلم بندی تو میں کر کے نہیں لایا۔ ٹیپ بھی نہیں ہے۔ جھلکیاں چلیں گی۔ کٹی پھٹی نہیں۔ اچھا خیر سنو بیچ میں مت بولو۔ بھولا میں کچھ بھی نہیں وہاں بھولنے والی کوئی بات ہی نہیں ہوئی بڑے مزے آئے ذرا سُنو تو کراچی میں محمود صاحب سے دلی روانہ ہونے سے ایک دن پہلے جو ملاقات ہوئی تھی تو اس ملاقات میں یاد نہیں رہا کس سے مخاطب تھے کیوں بھئی یہ منصوبہ کامیاب بھی ہو گا اتنا کہہ پائے تھے کوئی اشارہ سا پا کر چپ ہو گئے تھے۔ میں چونکہ پہلی ملاقات تھی گوش بر آواز تو تھا مگر زیادہ سوچنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اب خیال آتا ہے کہ وہ ایک بات تھی بہرحال۔ رئیس صاحب دور اندیش اور مستقبل شناس ہیں دُور کی کوڑی لانا کوئی ان سے سیکھے دونوں دن کڑھتے جلتے اس لیے گزرے کہ رٹ لگا رکھی تھی رئیس صاحب نے پریم سبھا کی‘ جو ایک مصلحت کے تحت معرض وجود میں آئی تھی خود بدولت صدر‘ اختر فیروز سیکرٹری‘ محمود صاحب خزانچی یا کچھ ایسی ہی ذمہ داریاں یہ پاک ہند پریم سبھا ستائش باہمی کی طرح کی ایک چیز ہے ایک اردو سندھی جھگڑے کے بعد جسے اردو تحریک کا نام دیا اور ایک پرانی مطبوعہ نظم کو از سر نو مرثیے کا روپ دے کر اردو کا جنازہ دھوم سے
نکالا تھا اس کے ساتھ ہی رئیس صاحب کے مسلم لیگی نظریات میں واضح تبدیلی آئی جسے عام بہرحال انہوں نے نہیں ہونے دیا۔ مجھے یہ جملہ نہیں بھولتا آئو یار چلو تم بھی اردو تحریک کے اجلاس میں‘ ہم نے تعمیرِ پاکستان کے لیے کام کیا تھا اب تخریب پاکستان کا تماشا بھی دیکھ لو۔ پاک ہند پریم سبھا جب وجود میں آئی تھی تو میں نے اعتراض کیا تھا کہ یہ آپ کیا ہندوستان کی محبت میں مرے جا رہے ہیں چھوڑیے ان فضول کے قصوں میں آپ نہ پڑیں تب رئیس صاحب نے خاصا معقول سا ہی کہہ لو جواب لانا وہ سرخ بیاض‘ یہ دیا تھا کہ آپ نے لکھا ہے کہ ہندوستان سے خواہ کوئی آئے آپ سرگرمی سے اس کی پذیرائی کرتے ہیں۔ در حقیقت پاک ہند پریم سبھا کا مقصد ہی یہ تھا کہ غیر سرکاری سطح پر دونوں ملکوں کے ٹوٹے ہوئے ادبی رشتوں کو ایک بار پھر جوڑا جائے چنانچہ پاک ہند پریم سبھا باہم ادبی شخصیتوں کی (جو ہندوستان سے ادھر آتے ہیں) کی پذیرائی اسی مقصد اور جذبے کے زیر اثر کرتی ہے آخر یہ دونوں ملک کب تک ایک دوسرے سے برسر جنگ رہیں گے۔ بین الاقوامی حالات (پاکستان کے گردو پیش) تیزی سے بدل رہے ہیں‘ یہ کہنا مشکل ہے
کہ کل کیا ہو جائے؟ دائیں بائیں بازو کی کشمکش روزانہ شدید سے شدید تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ افغانستان کی سرحدوں پر خطرات منڈلا رہے ہیں‘ ایران کو آگ اور خون سے غُسل دیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہندوستان سے ہمارے تعلقات میں کوئی بگاڑ پیدا نہ ہو امرِ واقعہ یہ ہے کہ پاک ہند پریم سبھا کا قیام اس موقع پر ناگزیر مجبوری اور اہم قومی ضرورت تھا اور ہے اگر نوائے وقت یا اس کے ہم خیالوں کو ہندوستان سے بہتریٔ روابطہ اور بحالی تعلقات کا منصوبہ ناپسند ہے اور پنجاب اپنے معاشی مفادات کو برقرار رکھنے کے لیے جنگی فضا قائم رکھنا چاہتا ہے تو فبہا۔ ہم تو اس شرمناک مہم میں حصہ دار بننے پر تیار نہیں۔ سندھ میں ہمارے اصل حلیف سندھی ہیں اور ہمیں ہندوستان اور سندھ سے ہر طرح کے دوستانہ تعلقات آگے بڑھ کے قائم کرنا چاہئیں آپ نے پاکستان کے مستقبل کی نسبت جو خدشات ظاہر کیے ہیں وہ بے بنیاد نہیں اکثر لوگ اسی طرح سوچ رہے ہیں اور بجا سوچ رہے ہیں افسوس کہ نہ قومی حکومت ہمارے کام آئی نہ سیاسی پارٹیاں‘‘
(اقتباس از مکتوب رئیس امروہوی بنام انیس 22جولائی 1979ء نمبر1)یہ تین ساڑھے تین سال پہلے کی باتیں ہیں۔ ہندوستان سے لوگ آتے رہے پریم سبھا کے زیر اہتمام رئیس صاحب کے دولت کدے پر ہندوستانی سفیر اور سفارت کاروں کی صدارت میں استقبالیے دیے جاتے رہے۔ محمود صاحب جیسے وضعدار اور بے ضررسرمایہ داروں کو ہاتھ میں لیے رکھا گیا۔ سو پچاس آدمیوں‘ مہمانوں کے لیے ایک زور دار دعوتِ خورو نوش اُمرا کے بائیں کا کھیل ہی تو ہوتا ہے میں تو کبھی ایسی تقریب میں شامل نہ ہو سکا کبھی بلایا ہی نہ گیا۔ معلوم ہوا اختر فیروز کرتا دھرتا ہیں اور وہی سرخ رنگ کی جھنڈیوں پر پاک ہند پریم سبھا لکھا کر لٹکاتے اور تصویریں اترواتے ہیں۔ روزنامہ جنگ تو ہے ہی حضرت کے ہاتھ میں چلیے پریم سبھا کی کارروائیاں چھپ گئیں دھوم دھام سے۔ تصویریں لگی اور خبریں بھی جم گئیں اس دوران میں کم و بیش درجن بھر ہنگامے تو برپا ضرور ہوئے ۔بہر صورت بہت ہو چکا اب ہمیں بھی جانا چاہیے۔ کلکتے سے نہ رشتہ نہ ناتا نہ واسطہ۔ وہاں کے کچھ لوگوں کو لکھا لکھایا لیکن پاکستان سے اجازت نامہ مل نہ سکا۔ بہت جلے بہت کڑھے درد بھرا خط لکھا وہ نوائے وقت میں بھی ہندوستانی اخبار سے نقل ہوا وہ بھی یہیں کہیں ہو گا۔ ہاں پچھلے ہی دنوں تو رئیس صاحب کی ارسال کردہ ردّی میں سے نکلا تھا۔ چلو یہ بھی پڑھ لیں‘ بیچاروں کی کس طرح جان نکلی جا رہی تھی۔ پورے کا پورا ماتمی شذرہ ہے۔
رئیس اکاڈیمی گارڈن ایسٹ کراچی3(2ستمبر1981)
برادرِ عزیز و محترم‘ اسلام وعلیکم ۔ امید کہ مزاج گرامی بخیر ہو گا۔ کراچی سے رئیس امروہوی کا پیام شوق و سلام اخلاص قبول فرمائیں۔ احباب کلکتہ خصوصاً برادر عزیز جناب ثناء الرحمن شمسی کے فرمانے پر میں نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ مشاعرے میں شرکت کے لیے کلکتے کا سفر ضرور کروں گا اور جن حضرات سے ملنے کی دیرینہ تمنا ہے ان کی خدمات میں حاضری دونگا۔ آپ کا اسم گرامی سرفہرست تھا تاکہ ؎
گوش شنوا شودر گفتارت
چشم بینا شود ز دیدارت
آج کا مطلع
دامان ِ شہ سے وسعت گدا کتنی دُور ہے
اے قصرِ شیشہ سنگِ سزا کتنی دُور ہے
نوٹ: کل والے شعر کاپہلا مصرعہ اس طرح پڑھا جائے
در ہے کوئی وجود کے اندر کھلا ہوا