جسے بھی موقعہ ملے وہ کرپشن ضرور کرتا ہے : سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''جسے بھی موقعہ ملے وہ کرپشن ضرور کرتا ہے‘‘ کیونکہ خادم اعلیٰ نے کرپشن کے صرف بُت توڑے ہیں‘ کرپشن کرنے والے ابھی اُن کے ہتھے نہیں چڑھے اور جونہی کسی کرپٹ سے اُن کا ٹاکرا ہو گیا وہ اُسے کرپشن کے بُتوں کے حشر سے ضرور آگاہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''چار سال میں ساری برائیاں ختم نہیں کی جا سکتیں‘‘ کیونکہ اس کے لیے کم از کم چالیس سال چاہئیں اور اگر عوام چاہتے ہیں کہ برائیاں مکمل طور پر ختم ہو جائیں تو وہ ہماری حکومت اگلے چالیس سال تک رہنے دیں اور دیکھیں کہ ساری برائیاں کس طرح ختم ہوتی ہیں بلکہ عدلیہ کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ وہ بھی یقینا برائیاں ختم کرنے کے حق میں ہو گی اس لیے بہتر ہے کہ ہماری حکومت کو نہ چھیڑے ورنہ برائیاں اس ملک سے کبھی ختم نہیں ہوں گی۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں تاجروں کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اعلان لاتعلقی
ہرگاہ بذریعہ اشتہار ہذا پیپلز پارٹی عزیر بلوچ سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے اور اُس نے اپنے بیان حلفی میں مبالغے سے کام لیا ہے اس کی مذمت کرتی ہے کیونکہ جن شوگر ملوں پر اس سے قبضہ کرایا گیا وہ چار نہیں بلکہ پانچ تھیں۔ چنانچہ پانچویں شوگر مل اس نے خود کہیں غائب کر دی ہے جو اس سے برآمد کی جائے۔ نیز جن کوٹھیوں اور مکانات پر قبضہ کرائے جانے کا تعلق ہے تو اس میں بھی اس نے بہت مبالغے سے کام لیا ہے جو کہ صرف تین سو تھے چار سو نہیں اور اس طرح اُس نے رائی کا پہاڑ بنا کر کھڑا کر دیا ہے اور زرداری صاحب نے اگر اس کے سر کی قیمت اور مقدمات ختم کروائے تھے تو بیان دیتے وقت اس بے وفا چغل خور کو کچھ شرم و حیا سے کام لینا چاہیے تھا۔ ناجائز بھرتیوں والی بات میں بھی کوئی وزن نہیں کیونکہ یہ تو ہمیشہ سے ہوتی چلی آ رہی ہیں۔
المشتہر: پاکستان پیپلز پارٹی
ضروری اعلان
ہرگاہ بذریعہ اشہار ہذا اعلان کیا جاتا ہے کہ مشتہر نے اگلے روز جناب آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے ان کے ساتھ تعاون سے اتفاق کیا ہے جو کہ جمہوریت کے استحکام کے لیے بہت ضروری تھا جبکہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس کے متوقع فیصلے کے پیش نظر یہ بے حد مناسب تھا کیونکہ وزیراعظم جمہوریت کے استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کر چکے ہیں‘ واضح رہے کہ زرداری صاحب نے مشتہر کا سارا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھانے کا عہد کیا ہے اور وہ مشتہر کو کبھی شکایت کا موقعہ نہیں دیں گے ‘جبکہ میاں صاحب زیادہ تر ٹال مٹول ہی سے کام لیا کرتے تھے اور بعض اوقات تو بالکل ہی لوہے کا تھن ثابت ہوتے تھے اور مشتہر کے کئی اہم مسائل حل ہونے سے رہ جاتے تھے: چناچہ مشتہر نے محسوس کیا کہ اب ان تلوں میں مزید تیل باقی نہیں رہا۔
المشتہر : مولانا فضل الرحمن عفی عنہ
بچی کا بازو
اخباری اطلاع کے مطابق سانگلہ ہل میں ٹیچر نے وحشیانہ تشدد سے 9 سالہ بچی کا بازو توڑ دیا ہے کیونکہ بچی نے سبق یاد نہیں کیا تھا۔ اگرچہ پولیس اس سلسلے میں کارروائی کر رہی ہے جس کا ہرگز کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ بچے اگر سبق یاد نہ کریں تو وہ نالائق رہ جاتے ہیں اور جس کی ساری ذمہ داری اس کے ٹیچر پر آتی ہے جو اس کی بدنامی کا باعث بنتی ہے اس لیے ٹیچر بیچارہ تشدد نہ کرے گا تو اور کیا کرے گا اور یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ بچی کا صرف ایک بازو ٹوٹا ہے اور اس کا دوسرا بازو اسی طرح صحیح سلامت ہے جس سے وہ پورا کام لے سکتی ہے کیونکہ اللہ میاں نے دو آنکھیں‘ دو کان‘ دو پائوں اور دو بازو اسی لیے دیئے ہوئے ہیں کہ اگر ایک بیکار ہو جائے تو دوسرے سے کام لیا جاتا رہے۔ اس کا ایک مزید اچھا پہلو یہ بھی ہے کہ دوسری بچیاں اس سے عبرت حاصل کر کے سبق یاد کرتی رہیں گی اور اپنا بازو بھی بچا لیں گی یعنی عدو شرے برانگیزد کہ خیر مادراں باشد
اور اب آخر میں خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل :
اب کیا گلہ کریں کہ دعا سے نہ ہو سکا
جب کچھ یہاں جزا و سزا سے نہ ہو سکا
کچھ مجھ کو راہ راست پہ ہی ڈالتا کہیں
اتنا سا کام بھی تو خدا سے نہ ہو سکا
ہم رفتہ رفتہ آپ ہی اچھے ہوئے ہیں کچھ
اپنا علاج تیری دوا سے نہ ہو سکا
یوں ہم بغیر عشق ہی پھرتے رہے یہاں
اور کچھ بھی تیرے نازو ادا سے نہ ہو سکا
بے غیرتی کے ساتھ نکالا گیا ہے کام
اب کیا کریں جو شرم و حیا سے نہ ہو سکا
بکھرے پڑے ہیں سلسلے سارے اسی طرح
کچھ فیصلہ ہما و شما سے نہ ہو سکا
دھوکے سے ایک دن اُسے لے آئے راہ پر
ورنہ تو کچھ بھی آہ و بکا سے نہ ہو سکا
تحسین ناشناس ہی آتی کہیں سے کچھ
یہ بھی ہماری طبع رسا سے نہ ہو سکا
دل کا دیا خود اُٹھ کے بجھانا پڑا ظفرؔ
وہ کر دیا جو تیز ہوا سے نہ ہو سکا
آج کا مقطع
اس شہر کا تو ذکر ہی کیا ہے ابھی‘ ظفر
یہ پوچھیے کہ شہر نما کتنی دور ہے