"ZIC" (space) message & send to 7575

ٹوٹے

گدھوں کی افزائش؟
پنجاب حکومت نے گدھوں کی تعداد بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ موجودہ گدھوں کی رجسٹریشن شروع کر دی گئی ہے اور 25 ہزار دیہات میں تیار گدھے تقسیم کئے جائیں گے۔ اگر حکومت کا ارادہ گدھوں کو ایکسپورٹ کرنے کا ہے تو بات دل کو لگتی بھی ہے ورنہ ملک میں پہلے ہی گدھوں کی تعداد ضرورت سے زیادہ ہے بلکہ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو کروڑوں تک پہنچتی ہے جس کا صحیح اندازہ مردم شماری کے بعد لگایا جا سکے گا جو پہلے ڈھگے کہلاتے تھے‘ پھر انہیں ''گوبھیاں‘‘کا نام دیا گیا کیونکہ ووٹ ڈالنا ہی ایک ایسا کام تھا جس پر انہوں نے کبھی غور نہیں کیا اور یہ مستقل مزاج اتنے ہیں کہ شاعر نے بھی ان کے حوالے سے کہہ رکھا ہے ؎
خرِ عیسیٰ اگر بہ مکّہ رود
تا بیاید ہنوز خر باشد
جبکہ رہی سہی کسر گدھے کا گوشت کھانے سے نکل چکی ہے اور ایک دوسرے کو دولتیاں جھاڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے بجائے اس کے گدھوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے‘ حکومت کو چاہیے کہ جو گدھے موجود ہیں ان کے لیے مناسب سہولتیں پیدا کی جائیں تاکہ وہ باربرداری کا کام بہتر طور پر کر سکیں کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کھوتے کھوہ میں گرے ہوئے ہیں۔ چنانچہ حکومت کو یہ بھی چاہیے کہ بہبود آبادی کا محکمہ ختم کر کے ان لاتعداد گدھوں پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔
کمی‘ بیشی
وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف کا کہنا ہے کہ لوڈشیڈنگ صرف چار سے پانچ گھنٹے تک محدود ہو گئی ہے جبکہ لاہور میں لوڈشیڈنگ کا جن بے قابو ہو جانے کی اطلاعات ہیں جس پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ نیز وزارت پانی و بجلی کے ایک اعلان کے مطابق گرمیوں میں لوڈشیڈنگ کم نہیں ہو گی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ گرمی بڑھنے سے لوڈشیڈنگ بھی بڑھ گئی ہے۔ ان حالات میں لوڈشیڈنگ کا رونا رونے کی بجائے گرمی کم کرنے کے طریقوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور حکومت پر احتجاج کے تیر برسانے کی بجائے اس کے ساتھ تعاون کرنا ہی وقت کا تقاضا ہے۔ اس کا ایک علاج تو یہ ہے کہ گرمی کم ہونے کی دعائیں مانگی جائیں۔ عوام کی اکثریت تو خیر گناہگار ہی واقع ہوئی ہے‘ تاہم ہماری خوش قسمتی ہے کہ حکومت کے اندر پہنچے ہوئے لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ اس لیے اگر سرکاری طور پر اس کا اہتمام کر دیا جائے اور ایک محکمہ دعائے عامہ قائم کر دیا جائے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے کیونکہ اللہ اپنے نیک بندوں کی ضرور سن لیتا ہے۔
کرپشن کے خلاف
چیئرمین نیب نے ایک بار پھر کہا ہے کہ کرپشن کے خلاف عدم برداشت ان کی پالیسی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ چیئرمین نیب اور خادم اعلیٰ کے درمیان کرپشن کے خلاف بیان دینے کا مقابلہ چل رہا ہے جس میں ناغہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہم ان دونوں حضرات کے مرہون منت ہیں کہ کرپشن ملک میں کہیں نظر نہیں آتی۔ خادم اعلیٰ نے اس کا بت ایک ہی ضرب سے پاش پاش کر دیا ہے تو چیئرمین نیب نے پلی بارگینگ کر کے کرپٹ لوگوں کے ناک میں دم کر دیا ہے حتیٰ کہ پولیس بھی اس قدر محتاط بلکہ توبہ تائب ہو چکی ہے کہ پیسے کو ہاتھ نہیں لگاتی اور پیسے اُن کی جیب میں زبردستی ڈالنا پڑتے ہیں اور جو اگلے روز یہ خبر چھپی تھی کہ پولیس نے چوروں اور ڈاکٹروں سے بھی بھتہ لینا شروع کر دیا ہے تو یہ بجائے خود ایک مستحسن اقدام ہے۔
سُود خوری کی لعنت
ایک اور اطلاع کے مطابق لاہور میں منی لینڈنگ ایکٹ کے باوجود سُود خوری کا دھندا عروج پر ہے جبکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہیں۔ واضح رہے کہ حکومت کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی کیا کریں کیونکہ وہ اپنے دھندے میں لگے رہتے ہیں اس لیے انہیں قصور وار یا ذمہ دار گردانا نہیں جا سکتا بلکہ سارا قصور سُود پر قرض لینے والوں کا ہے اور اگر وہ اس شنیع حرکت سے باز آ جائیں تو سود خور اپنے آپ ہی باز آ جائیں گے‘ بصورت دیگر حکومت کو جو خود اپنے دھندے میں دن رات مصروف ہے چاہیے کہ سُود پر قرض لینے والوں کو پکڑے۔ اگر ایسے دس بیس لوگ اندر کر دیئے جائیں تو سُود خور مایوس ہو کرویسے ہی ترک وطن کر جائیں گے‘ تاہم ان کے لیے کئی دیگر راستے کھلے ہیں جن میں منشیات فروشی سے لے کر اغواء برائے تاوان جیسے'' معزز‘‘ پیشے شامل ہیں جبکہ ان پر کوئی خاص روک ٹوک بھی نہیں ہے اور اکثر اوقات پولیس بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
کچھ نہیں دیا!
وزیراعظم صاحب فرماتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ جبکہ حکومت نے عوام کو مایوس ہونے کا موقع ہی نہیں دیا کیونکہ جونہی وہ مایوس ہونے لگتے ہیں حکومت آگے بڑھ کر عوام کی خوشحالی کا کوئی پروگرام شروع کر دیتی ہے اور اگر شروع نہیں کرتی تو اس کا اعلان ضرور کر دیتی ہے اور کرپشن سے لے کر لوڈشیڈنگ تک عوام کو سب کچھ بھول جاتا ہے۔ بعض شرپسندوں کا خیال ہے کہ حکومت ہر معاملے پر جھوٹ بولتی ہے اور اس کی بات میں کبھی صداقت نہیں ہوتی۔ چنانچہ اگر ایسا ہو بھی تو دورغ مصلحت آمیز کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ آپ ہی سوچیے کہ اگر جھوٹ بول بول کر قوم کو مایوسی کے گڑھے میں گرنے سے بچایا جا سکتا ہے تو اس سے بڑی نیکی اور کیا ہو سکتی ہے جبکہ جھوٹ کو سیاسی بیان کہہ کر بھی چٹکیوں میں اڑایا جا سکتا ہے کیونکہ سیاستدان اگر سیاسی بیان نہیں دیں گے تو اور کون دے گا اور کوئی اور دے بھی کیسے سکتا ہے کیونکہ ؎
جس کا کام اُسی کو ساجے
اور کرے تو ٹھینگا باجے
آج کا مقطع
جہانِ جبر میں تھا اس کا جبر کیوں شامل
ظفر‘ قفس میں وہ ایک اور بھی قفس کیا تھا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں