"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں‘ متن اور ٹوٹا

قانون ہاتھ میں لینے والوں کو برداشت نہیں کرینگے : نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''قانون ہاتھ میں لینے والوں کو برداشت نہیں کریں گے‘‘ اگرچہ ہم کرپشن کو برداشت نہ کرنے کا عہد بھی ہر روز کرتے ہیں لیکن اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے لیکن ہم اسے برداشت نہ کرنے کے عہد پر اسی طرح قائم ہیں اور کرپشن کرنے والوں سے صاف کہہ دیا ہے کہ اگر یہ کام نہ چھوڑا تو تمہارا ٹھکانہ جہنم ہو گا اس لیے جہاں تک ہو سکے اپنی عاقبت کی فکر کرو۔ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''قوم متحد ہو کر مشال کے قتل کی مذمت کرے‘‘ اور اس کے ساتھ ساتھ مردود کل بھوشن یادیو کی بھی مذمت کرے کیونکہ بالآخر ہم نے بھی اقوام متحدہ میں پیش کرنے کے لیے ڈوزیٹر تیار کر لیا ہے اور اس میں تاخیر اس لیے ہو گئی کہ ہم ''دیر آید درست آید‘‘ کے سنہری اصول کے ماننے والوں میں سے ہیں اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سہج پکے سو میٹھا ہو۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں مشال کے قتل کا نوٹس لے رہے تھے۔
سی پیک اور گوادر کا کریڈٹ نوازشریف کو نہیں جاتا : زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''سی پیک اور گوادر کا کریڈٹ نوازشریف کو نہیں جاتا‘‘ کیونکہ یہ میرا منصوبہ تھا اور اس کا سنگ بنیاد اس لیے نہیں رکھا جا سکا کہ ہم عوام کی خدمت کرنے ہی میں اتنے مصروف تھے کہ سر کھجانے کی بھی فرصت نہ تھی اور سر کھجانے کیلئے ہم نے ایک ایک آدمی الگ سے رکھا ہوا تھا جبکہ ہمارے وزیراعظم صاحب نے تو اس کام کے لیے چار پانچ آدمی رکھے ہوئے تھے کیونکہ ہمارے فرنٹ مینوں کے بعد سب سے زیادہ خدمت بھی موصوف ہی کو کرنا پڑتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''اب ہمارا نعرہ ''گو نواز گو‘‘ ہو گا؟‘‘ جس کا مطلب ''کم بلاول کم‘‘ بھی ہے۔ آگے جو خدا کو منظور ہوا۔ انہوں نے کہا کہ '' اب میاں صاحب سے ملاقات الیکشن کے بعد ہی ہو گی۔‘‘ کیونکہ زیادہ تر معاملات پہلے ہی طے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف کو تھکا کر ہرائیں گے‘‘ اور اگر اس دوران خود تھک کر نڈھال ہو گئے تو آرام کریں گے۔ آپ اگلے روز دنیا نیوز کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
سیاسی مقاصد کے لیے نفرتیں نہ پھیلائی جائیں : وزیر داخلہ
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خاں نے کہا ہے کہ ''سیاسی مقاصد کے لیے نفرتیں نہ پھیلائی جائیں‘‘ البتہ غیر سیاسی مقاصد کے لیے نفرتیں پھیلانے کی اجازت عام ہے‘ اس لیے سیاست جیسے مقدس پیشے کو بدنام کرنے سے گریز کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''ڈان لیکس پر اتفاق ہو گیا ہے‘‘ اور عدم اتفاق ہی کی وجہ سے اس میں اتنی تاخیر بھی ہوئی ہے کیونکہ قربانی کا بکرا بننے کے لیے کوئی تیار ہی نہیں ہو رہا تھا‘ آخر قومی مفاد کا واسطہ دے کر یہ مسئلہ حل کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ''میڈیا کو بھی ڈان لیکس کے حوالے سے تسلی ہو جائے گی‘‘ اگرچہ اصل تسلی دوسرے فریق کی ہے اور اُمید ہے کہ اللہ اسے بھی نیک ہدائت دے گا کیونکہ وہ بھی جانتے ہیں کہ پانامہ لیکس نے ہی ہمارا خون اس قدر خشک کر رکھا ہے کہ اب اور کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''زرداری کے ساتھیوں کا لاپتہ ہونا باعث تشویش ہے‘‘ اور ہم ہر ایسے معاملے پر تشویش کا انحصار کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ 
بدعنوان شخص کے ساتھ زیادہ دیر نہیں
بیٹھ سکتا‘ بدبُو آتی ہے : صدر ممنون
صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ ''میں بدعنوان شخص کے پاس زیادہ دیر نہیں بیٹھ سکتا‘ بدبُو آتی ہے‘‘ تاہم سرکاری تقریبات وغیرہ میں مجبوراً بیٹھنا پڑتا ہے تو جیب سے رومال نکال کر ناک پر رکھ لیتا ہوں یا اُٹھ کر کسی دوسری جگہ چلا جاتا ہوں لیکن بدبو پھر بھی آتی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''مجھے کبھی سیلف پراجیکشن کی خواہش نہیں رہی اور نہ ہی میں نے آگے بڑھنے کے لیے کبھی لابنگ کی‘‘ اگرچہ جہاں پر میں ہوں اس سے آگے بڑھنے کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے تاہم لابنگ کرنے سے کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ''کراچی کو دیکھتا ہوں تو بہت افسوس ہوتا ہے‘‘ بلکہ خدا نہ کرے زیادہ افسوسناک دن تو ابھی آنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''صحافیوں کے مسائل پر سنجیدگی سے توجہ دے رہے ہیں‘‘ مثلاً جو صحافی میڈیا سیل میں شامل کئے گئے ہیں ان کے مسائل کافی حد تک خودبخود ہی حل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی پریس کلب کو گرانٹ دینے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ہور چُوپو!
اخباری اطلاع کے مطابق لاہور کے ایک ہوٹل سے ایک اہم شخصیت کو گرفتار کرنے کی پاداش میں پولیس اہلکاروں کو حوالات کا منہ دیکھنا پڑا۔ تفصیلات کے مطابق تھانہ لٹن روڈ کے ایس ایچ او کو ہوٹل سے سرگودھا کی ایک اہم شخصیت کو گرفتار کرنا بہت مہنگا پڑا۔ اس اہم شخصیت کی گرفتاری پر لٹن روڈ کا سب انسپکٹر نذر‘ اے ایس آئی اسلام آباد اور دو کانسٹیبلوں امداد علی اور بابر کو حوالات میں بند کر دیا گیا جبکہ ایس ایچ او تاحال تھانہ سے غائب ہے۔ اہم شخصیت کو سفارش پر چھوڑ دیا گیا۔ ڈیوٹی افسر نے واقعہ سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے جبکہ ایس پی سول لائنز معاملے کی انکوائری کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس میں ساری غلطی پولیس والوں ہی کی تھی جنہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اہم اور عام شخصیات کے لیے قانون الگ الگ ہیں جبکہ پولیس والے اپنی جانب سے فرض منصبی ہی ادا کر رہے تھے۔ احمق کہیں کے!
آج کا مطلع
جو مرے حق میں بظاہر کارسازی کر گیا
غور سے دیکھیں تو کیسی چالبازی کر گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں