ویسے تو آج صبح ہی سے چھٹی کا موڈ تھا کیونکہ آج سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ آنا ہے۔ سو اگرنواز شریف کے حق میں آتا ہے تو جشن منائیں گے اوراگر خلاف تو سوگ۔ یعنی سِدھ بھی ہماری ہوگی اور پُٹھ بھی ہماری۔ ویسے تو میاں صاحب نے صاف کہہ دیا ہے کہ عوام نے مجھے کام کرنے کے لیے منتخب کیا ہے،فیصلے سننے کے لیے نہیں۔ اس کا بھی یہی مطلب ہوا کہ یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے کہ فیصلہ سن لیں یا عوام کے مینڈیٹ کے مطابق سنیں ہی نہیں۔ یعنی اس پرعمل درآمد کی نوبت بھی نہ آئے کیونکہ پہلے بھی سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوا اور کوئی قیامت نہیں ٹوٹی۔
اس لیے بیشک عدلیہ انہیں علیٰحدہ بھی کردے، امید ہے کہ وہ عوام کے مینڈیٹ کے مطابق کام یعنی عوام کی ہمیشہ کی طرح خدمت کرتے رہیں گے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ان کا انتخابی نشان ہی شیر نہیں،وہ خود بھی شیر سے کم نہیں ہیں اور دونوں صورتوں میں ہمارا نعرہ بھی یہی ہوگا کہ قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ چنانچہ ہم نے جشن کا پروگرام ترتیب دے لیا ہے تاکہ کالم سے چھٹی کا بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکے، کیونکہ جشن دونوں صورتوں میں واجب ہو جائے گا۔
چنانچہ پہلے تو ہم رانا ثناء اللہ ، عابد شیرعلی، طارق فضل، امیر مقام اور خواجہ سعد رفیق کو مبارکباد پیش کریں گے کہ آخرآپ لوگوں نے میدان مار ہی لیا کیونکہ دونوں صورتوں میں فتح یاب وہی ہوں گے جبکہ ناموافق فیصلہ آنے کی صورت میں انہوں نے بھی بہت کچھ سوچ رکھا ہوگا اور ان انتظامات میں سے ایک تو یہ ہوسکتا ہے کہ فٹافٹ صدر صاحب سے ایمرجنسی نافذ کروا دیں جس سے سپریم کورٹ کے اختیارات بھی محدود ہو جائیں گے اور ہوسکتا ہے کہ یہ سمری انہوں نے صدر صاحب کو بھجوا ہی رکھی ہو۔ چونکہ مخالف فیصلہ عوامی مینڈیٹ کے خلاف ہوگا جس کے خلاف احتجاج کرنے کا انہیں جمہوری حق بھی حاصل ہوگا۔ اس لیے اس سلسلے میں بھی رانا صاحب نے حسب توقع پروگرام ترتیب دے لیا ہوگا۔ اس کے علاوہ صدر صاحب پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس بھی فوری طورپر طلب کرسکتے ہیں کیونکہ آئین اور قانون ساز ادارہ تو وہی ہے۔ سپریم کورٹ تو صرف اس پر عملدرآمد کی ذمہ دار ہے اور اس
سلسلے میں پارلیمنٹ بھی کوئی نہ کوئی ضروری قدم اٹھا سکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
سو ہم کافی دیر سے ٹی وی کے ساتھ جڑے بیٹھے ہیں کہ دیکھیں کیا فیصلہ آتا ہے، جبکہ میاں صاحب بھی فیصلہ سننے کی بجائے کسی پراجیکٹ کا افتتاح وغیرہ کر رہے ہوں گے کیونکہ فیصلے سننے کے لیے عوام نے انہیں منتخب ہی نہیںکیا اور تاکید مزیدکی خاطر ہوسکتا ہے وہ کسی پراجیکٹ کا دوسری یا تیسری بار افتتاح کرنے میں مصروف ہوں۔ ادھر ہم یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ میاں صاحب کی کامیابی کی صورت میں عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید کے ساتھ اظہار ہمدردی کن الفاظ میں کی جائے۔ عمرا ن خان کو تو شاید ہوش میں لانے کے لیے جا کرلخلخہ بھی سنگھانا پڑے۔
لیجیے جناب، انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور وزیراعظم نااہل ہونے سے بچ گئے۔ اور ہمارے لیے وقتی طور پر جشن منانے کی گنجائش پیدا ہوگئی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ابھی کل ہی اپنے کالم میں ہم نے یہی گزارش کی تھی کہ نواز شریف کو کچھ نہیں ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں اورنہ ہی ماسوائے توہین عدالت کے کسی کو سزا دے سکتی ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ ایک جوڈیشل کمیشن مقرر کیا جائے گا۔ بہرحال، حکومت کی یہ خوشی عارضی ہے کیونکہ کمیشن میں نہ صرف مختلف اہم تفتیشی ایجنسیاں بشمول ملٹری انٹیلی جنس شامل ہوں گی اور وزیراعظم اور ان کے دونوں صاحبزادے ان کے سامنے پیش ہوں گے جس کی رپورٹ دوماہ میں پیش کی جائے گی ۔ یعنی یہ ایسی جے آئی ٹی نہیں ہوگی جو کسی کمزوری کا مظاہرہ کرے گی اور اس کا فیصلہ باقاعدہ پبلک کیا جائے گا۔
سوال صرف یہ پیدا ہوتا ہے کہ معزز جج صاحبان کو جب اچھی طرح سے معلوم تھا کہ وہ ٹرائل کورٹ نہیں ہے اور خود کسی کو اس طرح سزا نہیں دے سکتی تو شروع ہی میں یہ کمیشن یا ٹیم کیوں نہ بنا دی گئی تاکہ اتنا قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچایا جاسکتا، تاہم یہ جے آئی ٹی جس قدر مضبوط ہوگی اس کے پیش نظر جو بھی رپورٹ آئے گی یہ نواز شریف فیملی کے لیے پریشان کن بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ سو یہ معاملہ 67 دن کے لیے ملتوی ہوگیا ہے، اس لیے یار لوگوںکو بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ یہ خوشی بھی عارضی ہے اور مایوسی بھی، کیونکہ میاں صاحب نے 250 سوالات کے جوابات بھی دینا ہوں گے جن سے وہ اب تک بچے ہوئے تھے جبکہ دو ججوں کی یہ رائے کہ نواز شریف نااہل قرار دیئے جانے کے سزاوار ہیں، نواز لیگ کے لیے ایک ذہنی غذا کی حیثیت رکھتی ہے۔ نیز یہ بھی کہ اس فیصلے کو بقول سپریم کورٹ ایک لمبے عرصے تک یاد رکھا جائے گا اور یہ بھی کہ وزیراعظم کا اپنے ہی ماتحت افسروں کے سا منے پیش ہونا اورایسے سوالات کا جواب دینا جو کسی ملزم ہی سے کیے جاسکتے ہیں بجائے خود ان کی عزت میں کوئی اضافہ نہیں کرے گا۔
چنانچہ یہی دیکھا جا رہا ہے کہ دونوں فریق فتح کے ڈنکے بجا رہے ہیں جو بجا ے خود ایک صحت مندانہ رویہ ہے اورامید کا دامن کوئی بھی چھوڑنے کو تیار نہیں۔
آج کا مقطع
گردِ رسوائی ابھی جھاڑ کے بیٹھا ہوں‘ ظفر
دل ہے‘ کیا جانے کوئی اور حماقت کر دے