"ZIC" (space) message & send to 7575

علی اکبر ناطق کی شاعری اور خانہ پُری

علی اکبر ناطق افسانہ نگار‘ ناول نگار شاعر اور نقاد تو ہیں ہی کچھ نہیں کہہ سکتے کہ کل کلاں مجسّمہ ساز‘ مصّور اور مفتی بھی نکل آئیں۔ ''سُر منڈل کا راجا‘‘ ان کا تیسرا مجموعۂ کلام ہے جو سانجھ لاہور نے چھاپا اور قیمت180روپے رکھی ہے اس کا انتساب فہمیدہ ریاض کے نام اور دیباچہ نگار زیف سیّد ہیں، ٹائٹل بھی زیف سید ہی کے موقلم کا مرہون منّت ہے۔ ہمارے دوست شمس الرحمان فاروقی پسِ سرورق پر رقم طراز ہیں:
علی اکبر ناطق کے بارے میں اب یہ حکم لگانا مشکل ہو گیا ہے کہ جدید شعر میں ان کی اگلی منزل آگے کہاں تک جائے گی کہ ہر بار وہ پہلے سے زیادہ چونکاتے ہیں، ان کے پہلے کلام میں تازگی اور میرا جی کی سی قوت اور داخلیت تھی۔ روایت اور تاریخ کا شعور بھی حیرت زدہ کرنے والا تھا۔ اب کے کلام میں لہجہ جدید نظام کے کلاسک شعرا سے بالکل الگ بھی ہے‘ نیا بھی ہے اور جوش ِ درد سے بھی بھرا ہوا ہے اور صرف اور صرف اُن کا اپنا ہے۔ اس سے پہلے ایسی روایت موجود نہیں ہے۔ محبّت کی باتیں بہت ہیں لیکن ان میں زیاں اور ضرر کا احساس بھی زیادہ ہے۔ لہجہ پیغمبرانہ ہے۔
نظم کا بہائو اور آہنگ کی روانی ایسی ہے کہ حیرت پر حیرت ہوتی ہے خاص کر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس وقت ان کے کلام پر پنجابی کا اثر عام سے زیادہ ہے۔ اس کے باوجود یہ پیوند بہت ہی اچھے لگتے ہیں۔ اس مجموعے کی نظمیں ہماری جدید شاعری کے لیے ایک مطلق نئی چنوتی لے کر آئی ہیں۔ع
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے
اس کے بعد زیف سیّد کے دیباچے سے ایک اقتباس اس طرح سے ہے:
علی اکبر ناطق کی لگ بھگ ہر نظم سننے کے بعد جب یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ شاید اس نے اپنے اظہار کی معراج حاصل کر لی ہے اور اس سے آگے بڑھنا ناممکن ہو گا۔ وہ اگلی ہی نظم میں ایک نیا راستہ اختیار کر کے نئے سفر پر گامزن ہو جاتا ہے۔ ناطق کی نظم کا بیج مٹی میں ضرور ہوتا ہے لیکن نظم اُوپر ‘ اور اُوپر اٹھتے اٹھتے جاودانی آسمان کی وسعتوں سے ہم آہنگ ہو کر آفاقی اسطورہ بن جاتی ہے جسے آپ غیر قانونی اساطیر کے پہلو میں دیکھ سکتے ہیں۔ مجھے ایک اعزاز رہا ہے کہ میں پچھلے پانچ برس سے علی اکبر ناطق کی تقریباً ہر نئی نظم کا اولین سامع رہا ہوں۔ اس کے باوجود کم ہی ایسا ہوا ہے کہ اس کی نئی کاوش سُنتے وقت دل میں یہ سوال پیدا نہ ہو کہ اس شخص کی تخلیقی صلاحیتوں کی کوئی تھاہ ہے بھی کہ نہیں۔‘‘
جن دوستوں کی نظریں ناطق کے شب و روز پر رہیں‘ اس ضمن میں اس نے متعدد شاعروں‘ ادیبوں کے نام بھی لکھے ہیں، اب اس کی پہلی نظم دیکھیں:
سُر منڈل کا راجہ
پچھلے دنوں کی دیواروں پر بُن کر رات کے جالے
ٹھنڈے دنوں کے گاڑھے لَہُوپر پڑھ کر منتر کالے
میں جادو کے دیس چلا ہوں‘ جس کے پار اجالے
نیل سرا میں کھو جائیں گے مجھ کو ڈھونڈنے والے
چُھونے والے پاس آئیں تو پاس نہ آنے دوں گا
سحر نگر میں پری تماشا‘ پریوں پاس رہوں گا
آنکھ ہوا کی بھر آئے گی‘ دھندلائیں گے تارے
راہِ سفر میں جاگ اٹھیں گے ٹھہری نیند کے مارے
تیز اُڑے گی جیت ہماری‘ اُونگھنے والے ہارے
چھن چھن چھاجا چھنکائیں گے چُپ بیٹھے ہنکارے
پورب پچھم باجنے والا ایک خدا کا باجا
نام ہمارے بھجوائے گا سُر منڈل کا راجا
مُلک سراب کی جادُو نگری اور جادو کا ٹیلا
جُوں جُوں پربت پھیلتا جائے توں توں ماتھا گیلا
آخری برفوں کی منڈلی پر پھول ازل کا نیلا
آبِ حیات رگوں میں جاری لیکن چہرہ پیلا
جادُو گرنی مجھے پُکارے میں پنکھو شرمیلا
آخر کھینچ لیا منتر نے‘ ایک چلا نہ حیلا
پچھلے دنوں کچھ ''میوزیکل‘‘ غزلیں کہی گئیں‘ ان میں سے ایک حاضر ہے:
ہے وہ گُلبدن دن دن
نازِ انجمن من من
روشنی اُمڈ آئی
جب کُھلے بٹن ٹن ٹن
آپ کا یہ دل کل تک
تھا مرا وطن طن طن
سوچ کر کریں گے عشق
کام ہے کٹھن ٹھن ٹھن
کب سے اب تو رہتی ہے
ایک ہی لگن گن گن
کچھ نہیں پتا ہم کو
کیا ہُوا معاً عن عن
دوسروں سے ہٹ کر ہے
آپ کی پھبن بن بن
اس قدر اندھیرے میں
ہے کوئی کرن رن رن
اے ظفرؔ چلا دی ہے
اب یہ کیا پون ون ون
آج کا مطلع
تیرے قصے میں مرا نام بھی آ سکتا ہے
اس خموشی میں یہ کہرام بھی آ سکتا ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں