چھُری
یہ بغل میں ہو تو مُنہ میں رام رام کا ہونا ضروری ہے‘ اگرچہ ہم نے آج تک کسی کو چھُری بغل میں رکھتے نہیں دیکھا‘ البتہ اگر آپ سکھ برادری سے تعلق رکھتے ہوں تو کرپان ضرور بغل میں رکھ سکتے ہیں جس کی ایک نیام بھی ہوتی ہے۔ یہ اگر خربوزے پر گرے یا خربوزہ اس پر تو نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے۔ میٹھی چھُری شکر سے تیار ہوتی ہے اس لیے ذیابیطس کے مریض کو نہیں مارنی چاہیے۔ جانور کو زیادہ تکلیف دینا مقصود ہو تو اُسے کنُد چھُری سے ذبح کرتے ہیں۔ حکمت ہے کہ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ ساتھ اپنی چھُریاں تلواریں بھی تیار رکھو۔ اس سے پھل‘ سبزی اور گلا کاٹتے ہیں۔ بھارت کے کسی شہر میں ایک محلہ چھُری ماراں بھی ہے‘ یقیناً (بھارتی)گجرات میں ہو گا۔ اس کا مذکّر چھُرا کہلاتا ہے۔ بہرحال‘ یہ کسی صورت بغل میں نہیں رکھا جا سکتا۔ دو ملّائوں کے درمیان مُرغی چھُری ہی کی وجہ سے حرام ہو جاتی ہے۔
قینچی
بعض زبانیں قینچی کی طرح چلتی ہیں حالانکہ قینچی زبان کی طرح نہیں چلتی۔ میٹرو بس کا ایک سٹیشن قینچی کہلاتا ہے‘ شاید اس کی بنیاد قینچی پر رکھی گئی ہو۔ کپڑا اور کاغذ کاٹنے کے کام آتی ہے۔ ٹانگوں میں کسی کو دبوچنا قینچ مارنا کہلاتا ہے۔ دراصل یہ دو چھُریوں پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں درمیان میں کیل سے جوڑا گیا ہوتا ہے چھوٹی قینچی سے مُونچھیں کترنے کا کام لیتے ہیں کیونکہ بڑی قینچی سے مونچھوں کے ساتھ ساتھ ہونٹ بھی کٹ جاتے ہیں۔ بھلے وقتوں میں قینچی مارکہ سگریٹ بھی ہوا کرتے تھے اب نایاب ہیں جبکہ قینچیاں بدستور موجود ہیں۔
سُوئی
بھری محفل میں خاموشی کا اندازہ لگانا ہو تو فرش پر سُوئی گرا کر دیکھتے ہیں۔ یہ انگریزوں کا طریق کار ہے جو کہ کافی غلط ہے کیونکہ فرش اگر کچا ہو تو سُوئی چھوڑ سُوأ بھی گرایا جائے تو آواز نہیں آ سکتی۔ کسی زمانے میں سُوئی کے نکے میں سے اونٹ گزرا کرتے تھے۔ اس وقت یا تو اونٹ چھوٹا ہوا کرتا تھا یا سُوئی کا نکہ بڑا۔ اگر دھاگہ نہ ہو تو سُوئی بیکار ہے البتہ اس کی مدد سے پائوں میں چُبھا کانٹا ضرور نکال سکتے ہیں۔ چین میں درد کا علاج بدن میں سُوئیاں چبھو کر کیا جاتا ہے جو ہماری سمجھ میں بالکل نہیں آتا۔ اس کا مذکّر سُوا ہے جو برف توڑنے کے کام آتا ہے بلکہ کسی کے پیٹ میں بھی کھبو سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ سینے پرونے کے بھی کام آتی ہے بلوچستان میں ایک جگہ سُوئی ہے جہاں سے سُوئی گیس نکلتی ہے۔ ہمارے ہاں تو کھاریاں سے کھاری پانی تک نہیں نکلتا۔ سُوئی کی شان میں ایک شعر سنیئے ؎
ٹانکا لگے تو ٹھیک لگے کس طرح ظفرؔ
سُوئی درست ہے نہ ہی دھاگہ درست ہے
ہتھوڑی‘ ہتھوڑا
ہتھوڑی دیوار میں کیل ٹھونکنے کے کام آتی ہے۔ منقول ہے کہ ایک بیوقوف دیوار میں ہتھوڑی سے کیل ٹھونک رہا تھا جس میں کامیابی اس لیے نہیں ہو رہی تھی کہ اس نے کیل کو اُلٹا پکڑ رکھا تھا۔ پاس ہی ایک اور بیوقوف بیٹھا تھا اس نے یہ صورت حال دیکھی تو بولا‘ بیوقوف یہ تو اس دیوار کا کیل ہی نہیں ہے‘ چنانچہ اس نے کیل
اُسی طرح لے جا کر سامنے والی دیوار میں ٹھونک دیا۔ کانٹوں کے بستر کے علاوہ ایک کیلوں کا بستر بھی ہوتا ہے۔ گاجر کا جو حصہ سخت اور کھانے کے قابل نہیں ہوتا‘ کیل کہلاتا اور اسے نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔ اکیلے کا مطلب ہے جس میں کیل نہ ہو۔ کِلہ اور چیز ہے جس سے گائے بھینس باندھتے ہیں۔ ہتھوڑی کا ذکّر ہتھوڑا ہے۔ تھوڑا ہی عرصہ پہلے ایک ہتھوڑا گروپ ہوا کرتا تھا جو سوئے ہوئوں کے سروں پر ہتھوڑا مار کر اُن کا کام تمام کیا کرتا تھا۔ لوہا کوٹنے کے بھی کام آتا ہے۔ انہیں ہتھوڑی اور ہتھوڑا اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں ہاتھ کی مدد سے پکڑے جاتے ہیں حالانکہ دوسرے سب اوزار بھی ہاتھ ہی سے پکڑے جاتے ہیں لیکن انہیں ہتھوڑی یا ہتھوڑا نہیں کہا جاتا۔ افسوس کا مقام ہے۔
اُسترا
جب سے شیو کرنے کے لیے ریزر ایجاد ہوا ہے‘ اس کا استعمال کم ہو گیا ہے البتہ حجام حضرات اب بھی اسی سے کام چلاتے ہیں بہت چالاک اور کائیاں آدمی کو بھی اُسترا کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بندر کے ہاتھ میں اُسترا نہیں دینا چاہیے۔ یعنی آپ نے اگر بندر پال رکھا ہو اور آپ کے پاس اُسترا بھی ہو تو یہ احتیاط لازم ہے۔ اُستروں کی مالا کا بھی ذکر کیا گیا ہے لیکن ہم نے آج تک کسی کو اُستروں کی مالا پہنے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس سے گلا کاٹنے میں بھی سہولت رہتی ہے۔
اِستری
اگر یہ اُستری ہوتی تو اُسترے کی مونث ہوتی۔ استری دھلے کپڑے کے وٹ نکالنے کے کام آتی ہے۔ ہندی میں اِستری بیوی کو کہتے ہیں‘ شاید اس لیے کہ شوہرکے وٹ نکالتی رہتی ہے۔ کپڑا جلانے کے بھی کام آتی ہے۔ کوئلے اور بجلی دونوں سے چلتی ہے۔ پہلے دھوبیوں کے پاس ہوا کرتی تھی لیکن اب تو گھر گھر میں موجود ہوتی ہے۔ جو کپڑے بھی استری کرتی ہے اور ہانڈی روٹی بھی کرتی ہے۔
چمٹا
اس کی ہیئت کذائی کا تقاضا ہے کہ یہ کسی کے ہاتھ چمٹا ہوا ہو لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ چولہے میں جلتی لکڑیوں کو ادھر ادھر کرنے اور حقے کی چلم میں کوئلے بھرنے کے کام آتا ہے لیکن جب سے چولہے گیس پر ہو گئے ہیں اور سگریٹوں کا چلن عام ہوا ہے‘ یہ اوزار فالتو ہو کر رہ گیا ہے۔ البتہ یہ بجانے کے کام اب بھی آتا ہے اور باقاعدہ ایک ساز کا کام کرتا ہے۔ اس کی مونث چمٹی ہے جو چہرے کے فالتو بال اکھاڑنے کے کام آتی ہے۔ اس کا استعمال بھی اب پہلے جتنا نہیں رہا ع
انقلابات ہیں زمانے کے
آج کا مطلع
دیکھتے دیکھتے ویراں ہوئے منظر کتنے
اُڑ گئے بامِ تمنا سے کبوتر کتنے