اچھا ذرا مجھے روزنامچہ بھی تو ٹٹولنے دو۔ روزنامچہ کیا ہے بس اشارات ہیں یاد تازہ کرنے کے لیے۔ ہاں تیسری صبح کو بیکل اتساہی بھی تو ملنے آئے تھے رئیس صاحب سے۔ چیمس فورڈ کلب کے مشاعرے میں مجھے ان کا ترنم بہت پسند آیا تھا۔ میں نے اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کیا تو بولے پاکستان میں آپ نے مجھے نہیں سنا کیا۔ ہمیں کوئی بلاتا تو سنتے‘ یہ میرا جواب تھا۔ گفتگو رئیس صاحب سے بیکل کی زیادہ فسادات میرٹھ پر ہی رہی۔ بنائے فساد ایک پینتیس فٹ اراضی کا ٹکڑا تھا‘ وہ بھی کسی دکان کی چھت وت ہے جسے ایک ہندو نے مندر کی شکل دے دی اور اپنا قوس پھونکا کیا‘ جواباً مسلمانوں نے بھی ایک مسجد تو نہیں اورا د و وظائف کے لیے حجرہ وغیرہ تشکیل دے دیا۔ دَیروحرم کی کشمکش بڑھی تو کھینچ تان کر کسی طرح دونوں کا کریا کرم کر دیا گیا۔ گھنٹے بجانے سے وہ ہندو پھر بھی باز نہ آیا‘ مسلمان کیوں پیچھے رہتا‘ رات کی تاریکی میں مہنت بہادر کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر یہ سلسلہ چل نکلا وہ جو ایک الزام ہے کہ پہل مسلمان کرتا ہے تو وہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہے۔ ہندو ایک کائیاں‘ اس کا یہ ہے کہ بڑی ہوشیاری سے چھیڑ
چھاڑ کرتا رہتا ہے۔ طرح دے جائے مسلمان تو عافیت تو اسی میں ہے لیکن حالات ایسے پیدا کئے جاتے ہیں‘ اس طرح آتش شوق کو بھڑکایا جاتا ہے‘ برانگیخت کیا جاتا ہے کہ جان پر کھیلے بغیر مسلمان رہ نہیں سکتا۔ مذہبی معاملات میں ہماری روش نئی نہیں‘ روز اول سے چلی آتی ہے بھڑکا کے شعلہ جب آگ لگا دیتا ہے تو پھر وہ فساد ہندو مسلم نہیں ہوتے۔ پولیس‘ فوج اور نہتے مسلمان مدمقابل بن جاتے ہیں۔ مسلمان صرف قوت ایمانی سے لیس‘ اُدھر آتشین گولہ بارود اور خودکار ہتھیار۔ لوٹ مار قتل‘ غارت گری‘ آتش زنی‘ کاروبار ٹھپ‘ بازار سنسان‘ فاقے اور بے سروسامانی۔ دلی چونکہ مرکز ہے‘ صدر‘ وزیراعظم‘ سفیروں کا مرکز‘ دارالسلطنت‘ راجدھانی‘ مسلمان بھی بھرا پڑا ہے۔ بیس لاکھ سے زیادہ ہے‘ کم نہیں۔ یہاں اگر کوئی اونچ نیچ ہو تو بات بڑی سرعت سے دور دور تک پہنچتی ہے۔ بدنامی بین الاقوامی نہ بن جائے لہٰذا یہاں کی فضا تو کسی نہ کسی حد تک سیکولر ہے۔ دلی سے نکلو تو ہر جگہ دو دو ہاتھ۔ مسئلہ بچ کے کہاں جائے گا۔ ذرا کسی نے سکھ کا سانس لیا یونہی سہی اقتصادی آسائش کی جھرجھری لی اور آلودگیوں کے بھنور میں پھنسے۔ رئیس صاحب
نے اپنے سفرنامے کی قسط اول مطبوعہ روزنامہ جنگ کراچی 17 دسمبر 1982ء میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں فسادات کا سلسلہ جاری رہتا ہے لیکن بنائے فساد مذہب نہیں بلکہ سیاسی نعرے اور اقتصادی مفادات ہوتے ہیں۔
سیاسی نعرے اور اقتصادی مفادات میں حریف ضرور مسلمان ہی کیوں‘ سکھ اور عیسائیوں کا قتل عام کیوں نہیں ہوتا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان صرف مسلمان ہونے کی سزا مختلف حیلوں بہانوں سے بھگت رہا ہے۔ کاروباری زندگی میں سکھ خوب پیش پیش ہے۔ سکھ اقلیت پر کسی کا ہاتھ نہیں اُٹھتا۔ میرٹھ کی سرکاری خبروں میں مجموعی طور پر مرنے والوں کی تعداد اُنتیس بتائی گئی۔ بیس مسلمان نو غیر مسلم لیکن بیکل صاحب کا کہنا یہ تھا کہ سو سے کم کیا کھیت ہوئے ہوں گے۔ یہ سب کچھ ہے لیکن مسلمان اب بیدار ہو چکا ہے 1977ء کے بعد اب اپنے حقوق کے لیے لڑتا بھی ہے۔ مجلس دستور سازکے ٹکٹ بھی مانگتا ہے۔ اچھوت اگر اچھوت کے کام آتا ہے سکھ اگر سکھ کا دم بھرتا ہے تو اب مسلمان بھی مسلمان کے کام آنے لگا ہے۔ ہاں یہ تازہ واردات آسام کی بڑی حوصلہ شکن ہے۔ اگلے پچھلے تمام قصے کہانیاں ہو گئے واقعات۔ ہزاروں مسلمان شہید ہوئے ہیں۔ جبھی تو ہر شہر میں مسلمان ادھر ادھر سے سمٹ کر ایک ہی محلے ایک ہی بستی میں آباد ہونے کی کوشش کرتا ہے بلکہ آباد ہے۔ ادھر رئیس صاحب ہیں کہ فرماتے ہیں وہاں فساد اقتصادی ہے سیاسی ہے مذہبی نہیں۔ حضور اندراجی کو کوئی سکھ بھی ناپسند کرتا ہے‘ عیسائی بھی۔ اُسے کوئی سزا نہیں ملتی۔ اُن کے کان تک کوئی نہیں مروڑتا۔ گردنیں اُڑانا تو دور کی بات ہے...اور‘ اب خانہ پری کے طور پر اس ہفتے کی غزل :
چاروں طرف خلا ہے‘ تماشا کہیں نہیں
دُنیا کو ڈھونڈتا ہوں تو دُنیا کہیں نہیں
صحرا کوئی نہیں ہے جہاں جا کے خاک اڑائیں
ہو ڈوبنے کا شوق تو دریا کہیں نہیں
دن ہے نہ رات‘ اور یہاں دھوپ ہے نہ چھائوں
موسم کچھ اس طرح کا بھی دیکھا کہیں نہیں
پانی بھی دور تک نظر آتا نہیں ہمیں
اور‘ اس کے باوجود کنارا کہیں نہیں
پھرتے ہیں لے کے اپنی ہتھیلی پہ کوئی رنج
کچھ چاہتے ہوئے بھی چھپایا کہیں نہیں
تیرے تو ہر طرف مرے جیسے ہزار ہیں
میرے لیے مگر ترے جیسا کہیں نہیں
ہم اپنے پاس ہوں کہ تری حاضری میں ہوں
اب کیا کریں کہ اپنا گزارہ کہیں نہیں
جنگل میں مور ناچ رہا ہے اُسی طرح
حالانکہ اُس کو دیکھنے والا کہیں نہیں
کب سے ہے بند شہر کا ہر راستا ظفرؔ
آتا کہیں نہیں‘ کوئی جاتا کہیں نہیں
آج کا مطلع
ابھی کچھ اور بھی اُس کو پکار سکتا ہوں
میں زندگی کو دوبارہ گزار سکتا ہوں