کچھ عرصہ پہلے موبائل کھڑکا۔ میں نے کھولا تو آواز آئی،'' میں سیالکوٹ سے شکیلہ بول رہی ہوں‘‘''میں نے کہا کہ صرف شکیلہ یا شکیلہ جبیں؟‘‘بولیں ''شکیلہ جبیں‘‘
یہ میرا اس کا پہلا رابطہ تھا۔ البتہ اس سے پہلے اس کا پنجابی شعری مجمعوعہ میری نظر سے گزر چکا تھا جس میں تصوف کی گُھلاوٹ اتنی تھی کہ طبیعت خوش ہو گئی اور میں نے کالم میں اس کی تحسین بھی کی۔ بولیں ''میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں‘‘۔ میں نے کہا ''بسم اللہ۔ جب جی چاہے آ جائیں۔‘‘سو پچھلے جمعے کو وہ واقعی آ دھمکیں۔ بالکل سادہ لباس، دوپٹے کی بجائے چادر اوڑھے ہوئے۔ کوئی زیور بھی نہیں پہن رکھا تھا۔ میں نے کہا '' آپ کے ہاتھ بھی خالی ہیں، گلا بھی، کان اور ناک بھی، یہ کیا بات ہے‘‘۔ بولیں ''مجھے یہ چیزیں پسند ہی نہیں۔ صرف لپ سٹک کا شوق ہے جو میں نے ہلکی سی لگائی ہوئی ہے۔‘‘ باتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ گویا ایک آہستہ رو ندی تھی۔ شادی کا بتایا کہ پندرہ بیس سال پہلے ہوئی لیکن طبیعتیں نہ ملیں اور میں اپنے میکے آ گئی اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اب اپنے بھائی کے پاس مقیم ہیں۔ والدین وفات پا چکے ہیں۔
اپنے رہن سہن کا بھی بتایا کہ توفیق کے باوجود باورچی رکھنے کا تکلف نہیں کیا اور گھر کی ہانڈی روٹی ہم لوگ خود ہی کرتے ہیں۔ کہا کہ گندم کا ''پیہن‘‘ میں بطورِ خاص خود بناتی ہوں کہ گندم کی قربت مجھے ویسے بھی پسند ہے۔ گائے بھینس کا دودھ بھی دوہ لیتی ہوں۔ ''گوتاوہ‘‘ بھی کر لیتی ہوں۔ گائوں میں رہنا زیادہ پسند ہے۔ گائوں کی عورتیں ملنے کیلئے اکثر آتی ہیں جو کچھ اتنی صاف ستھری بھی نہیں ہوتیں لیکن انہیں بٹھا کر ان کی باتیں سنتی اور اپنی سناتی ہوں۔ یہ بھی بتایا کہ گائوں سے اتنی محبت ہونے کے باوجود میں وہاں دفن ہونا ہرگز پسند نہیں کروں گی۔
وجہ پوچھنے پر بتایا کہ ہمارا قبرستان، جس میں ہمارے اپنے خاندان کے لئے بھی گوشتہ مخصوص ہے‘ لاری اڈے کے بالکل قریب ہے اور میں نہیں چاہتی کہ قبر میں مجھے ہارنوں، انجنوں اور ہاکروں کی آوازیں ڈسٹرب کرتی رہیں۔ تاہم، ابھی تک یہ بھی فیصلہ نہیں کیا کہ دفن اگر ہونا ہے تو کہاں ہونا ہے۔ بھائی کے ساتھ محبت عشق کی حد تک ہے جو لاہور ہی میں ایک شعبے کے ڈائریکٹر ہیں۔ ایم اے انگریزی ادب کر چکی ہیں۔ لاہور آنے کا ایک مقصد مسعود کھدر پوش ایوارڈ حاصل کرنا بھی تھا جو انہیں دوسرے شعری مجموعے پر ملا۔ گھر سے بہت کم نکلتی ہیں۔ لاہور بھی سال میں ایک آدھ بار آنا ہوتا ہے۔
گفتگو زیادہ تر اللہ میاں اور ان کے ساتھ اپنے تعلق کے حوالے سے رہی۔ اپنی ذہنی نہیں‘ دلی کیفیات کے بارے میں کھل کر بتایا۔ کہیں کہیں اپنی شاعری کا حوالہ بھی آ جاتا۔ اور یہ گفتگو اس قدر سرشار کر دینے والی تھی کہ باقاعدہ احساس کمتری سا ہونے لگا۔ حیرت ہوئی کہ کوئی شخص خدا، دل اور اپنی شاعری میں اس حد تک بھی شرابور‘ ڈوبا ہوا ہو سکتا ہے۔ ''پنڈوکڑی‘‘ کی فرمائش کی۔ میرے پاس ایک ہی نسخہ تھا جو میں نے پیش کر دیا۔ بولیں ''کبھی ہمارے پاس بھی آئیں اور پانچ سات دن یا جب تک چاہیں ہمارے ساتھ رہیں۔‘‘ میں نے معذوری ظاہر کی کہ میں اپنے مسائل کی وجہ سے مجبور ہوں۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ کسی دن صبح جا کر شام کو واپس آ جائوں۔
یہ بھی بتایا کہ ایئرکنڈیشنر اور ہیٹر وغیرہ ناپسندیدہ چیزیں ہیں۔ میں اپنی بڑی بہنوں کو بھی نام لے کر پکارتی ہوں کیونکہ جو مزہ اور اپنائیت نام لے کر پکارنے میں ہے وہ باجی یا آپا وغیرہ میں نہیں۔ دو گھنٹے بعد اٹھ کر جانے لگی تو میں نے کہا کہ شاعری کے علاوہ میرے اور تمہارے درمیان تین رشتے قائم ہو چکے ہیں۔ پہلا یہ کہ میں عمر کے لحاظ سے تمہارا باپ ہوں، دوسرا یہ کہ میں تمہارا بھائی ہوں اور تیسرا یہ کہ میں تمہارا عاشق بھی ہوں۔ پھر آنے کا وعدہ کرکے رخصت ہو گئی۔
''اپنی گرو آپ‘‘ اور ''رب کھیڈاں کھیڈدا‘‘ دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور اب اس کی دوسری کتاب میں سے کچھ نظمیں جو ''سانجھ‘‘ نے چھاپی اور قیمت 300 روپے رکھی اور جس کا دیباچہ بشریٰ اعجاز نے لکھا ہے جس کے آخر میں وہ لکھتی ہیں:
'' ہک گل کمال دی اے! ایس سلیقے تے سجاوٹ لئی اونہاں نے جنہاں بولاں، اکھراں، علامتاں تے استعاریاں نوں چُنیا اوہ ٹھیٹھ زبان، پنجابی رہتل، وسیب تے خالص مٹی دی خشبو وچ رچیاں وسیاں نیں... ایسے لئی ایہناں دی شاعری پڑھن تے پرکھن دی نہیں محسوس کرن دی اے جیہڑی کہ مٹی دیاں رمزاں نال پروتی ہوئی پنجابی زبان دا اک اچیچ انگ اے‘‘۔
پیڑ اُٹھی انگ انگ
میری مٹی بُھردی/ میری جند وی جُھردی/ بھج بھج کھردی/ پال بیٹھی میں گنڈوئے/ مینوں کھان پوئے پوئے/ واہندے وچو وچ ہل/ باہر کڈھدے نیں بھل/ لوک نسّن میرے ول/ آ ہک نے کھلوئے/ بیہہ لے کے نرولے/ کھا کے دن راتیں ڈنگ/ پیڑ اُٹھی انگ انگ/ مٹی ہوئی سُوہے رنگ/ نین چھم چھم روئے/ لعل مٹی چ پروئے/ میں لون لیا پھک/ ہو گئی مٹی کولوں وکھ/ جنہاں ورھے لئے لکھ/ اوھ گھڑیاں چ موئے/ جیہڑے پالے نیں گنڈوئے۔
ایہہ دھرتی نکّی کاکی
ایہہ دھرتی نکّی کاکی/ میں جوڑاں ٹاکی ٹاکی/ ست رنگ چڑھاواں آپی/ ایہدے گل میں لیڑے پاواں/ کاکی دے لاڈ لڈاواں/ سر پریت دا پاواں تیل/ سبھ رلیے ہوئے میل/ جگ ویکھے ساڈا کھیل/ پھڑ کنگھی بودا واہواں/ کاکی دے لاڈ لاڈاواں/ میں ہوکے ہنجو ڈوہلاں/ میں چت کلیجی گھولاں/ ہے ایہدے لئی‘ میں بولاں/ ہتھ پشماں مہندی لاواں/ کاکی دے لاڈ لڈاواں/ ایہدے پیریں کولی جُتی/ کوئی جاگ پوے نہ سُتی/ مت ہو جان گُتوگُتی/ میں پتیاں پُھل گنڈھاواں/ کاکی دے لاڈ لڈاواں/ میں آکھاں بن سیانی/ نہ وڈی ہووے رانی/ نہ سر توں لنگھے پانی/ ایہنوں گودی رکھ کھڈاواں/ کاکی دے لاڈ لڈاواں
آج کا مطلع
محبت کر ہی بیٹھے ہیں تو پھر اظہار کیا کرتے
اُسے بھی اس پریشانی سے اب دوچار کیا کرتے