پیپلز پارٹی چھوڑ کر جانے والے گندے انڈے ہیں : زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ '' پیپلز پارٹی چھوڑ کر جانے والے گندے انڈے ہیں ‘‘ جبکہ اتنی دیر تک ہمارے ساتھ رہنے سے انہیں گندا ہی ہونا تھا حتیٰ کہ کئی اور انڈے بھی گندے ہونے والے ہیں اور پارٹی چھوڑ کر جانے والے ہیں اگرچہ انہوں نے گندا ہونے میں بہت دیر لگا دی ہے اور ہماری صحبت سے فیضیاب ہو کر انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' کپتان انہیں ٹکٹ نہیں دیگا ‘‘ جبکہ ہم انہیں ٹکٹ ضرور دیتے ، بھلے وہ ہار ہی جاتے کیونکہ اس دفعہ بھی حسب سابق ہمیں ہروانے کے انتظامات ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' عمران نے سیاست کو مذاق بنا دیا ‘‘ جبکہ خدمت کے لئے سنجیدگی بے حد ضرور ی ہے کیونکہ پوری سنجیدگی کے بغیر خدمت ہو ہی نہیں سکتی اور ہماری سنجیدگی کا ثبوت ہماری کارگزا ری ہے جس کے ذریعے جھولیاں بھر بھر کر خدمت کی گئی جو سب کو نظر بھی آرہی تھی۔ آپ اگلے روز مورو میں ایک اجتماع سے خطاب کررہے تھے ۔
لولی لنگڑی جیسی بھی ہے ، جمہوریت کو چلنا چاہئے : سید خورشید احمد شاہ
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ '' لولی لنگڑی جیسی بھی ہے جمہوریت کو چلنا چاہیے ‘‘ جبکہ ہم دونوں بڑی پارٹیوں نے اپنی مساعئی جمیلہ سے جمہوریت کو خود لولا لنگڑا کیا ہے اس لیے ہماری یادگار کے طور پر بھی اسے چلنا چاہیے کیونکہ اس کے لولی لنگڑی ہونے ہی سے ہم سب کے مزے لگے ہوئے تھے، اس لیے ہم سے زیادہ اس کا خیر خواہ اور کون ہو سکتا ہے، نیز اس کا مطلب لولے لنگڑے عوام بھی ہیں تاکہ وہ پیچھے بھاگنے کے لعد بھی ہمیں پکڑ نہ سکیں جبکہ میثاقِ جمہوریت کا اصل مطلب بھی یہی تھا کہ خدمت کی یہ دوڑ ہم دونوں تک ہی محدود رہے جس کا بھرپور مشاہدہ یہ لولے لنگڑے عوام کر بھی چکے ہیں اور اب تک کانوں کو ہاتھ لگا رہے ہیں حالانکہ انہیں کانوں کو صرف ہاتھ لگانے کی بجائے انہیں پکڑنا یعنی مرغا بننا چاہیے تھا۔ آپ اگلے روز نوشہرہ میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
جے آئی ٹی نے مریم کے تقدس کا خیال
نہ رکھا تو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ رانا ثناء اللہ
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''جے آئی ٹی نے مریم کے تقدس کا خیال نہ رکھا تو خمیازہ بھگتنا پڑے گا ‘‘ جس کا مطلب وہ اچھی طرح سے جاننے کے باوجود اپنا غیر مقدس کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ بات اس سے زیادہ کھلے الفاظ میں کیا کہی جا سکتی ہے جبکہ خواجہ سعد رفیق نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ انصاف نہیں ہو رہا، لہٰذا فی زمانہ بے انصافی کو کون برداشت کر سکتا ہے، ان کا تقدس جے آئی ٹی سمیت ہم سب پر لازم ہے ورنہ اسے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ خمیازہ کا کیا مطلب ہوتا ہے جبکہ سپریم کورٹ چند سال پہلے ہمارے ہاتھ دیکھ بھی چکی ہے اور تاریخ اپنے آپ کو دہراتی بھی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''خاتون کو طلب کرنا اسلامی اور مشرقی روایات کے خلاف ہے‘‘ اور جب بے نظیر بھٹو کو طلب کیا جاتا تھا اور وہ باہر اینٹوں پر بیٹھ کر انتظار کرتی رہتی تھیں تو یہ ان کی غلطی تھی کیونکہ بیٹھنے کے لیے انہیں کوئی سٹول وغیرہ ساتھ لے کر آنا چاہیے تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ''پیشی جے آئی ٹی کی کمر کے لیے آخری کیل ثابت ہو گا‘‘ اور یہ ہم کوئی فارسی میں بات نہیںکر رہے بلکہ سلیس اردو کو ذریعہ اظہار بنا رہے ہیں جسے ہر کوئی آسانی سے سمجھ سکتا ہے، آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اصل مقصد ----- ؟
ہمارے نواز لیگی دوستوں کا پارہ کئی دنوں سے آسمان کو چھو رہا ہے کیونکہ وہ نوشتہ دیوار پڑھ چکے ہیں۔ ان کے خیال میں چونکہ جے آئی ٹی متنازع ہو چکی ہے اس لیے اس متوقع فیصلے کے خلاف کچھ بھی کرنا ان کا حق ہے چنانچہ گرما گرمی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ان دھمکیوں کا مقصد اپنے کارکنوں کو بھی اس کار خیر میں شامل ہونے کے لیے تیار رکھنا ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ دنگا فساد، جلائو گھیرائو اور توڑ پھوڑ کے ذریعے ملک ، خصوصاً پنجاب میں ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں کہ فوج کو مداخلت کرنی پڑ جائے تاکہ یہ جماعت سیاسی شہادت کے رتبے پر فائز ہو سکے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ عدالتی شہادت ان کے لئے کار آمد ثابت نہیں ہو سکتی۔ اول تو ان دوستوں کی یہ خواہش پوری ہی نہیں ہو گی، اور ، اگر ہوئی بھی تو اس کا انہیں کوئی فائدہ بھی نہیں پہنچے گا بلکہ جھاڑو پھرنے سے ہر طرف صفائی نظر آئے گی ، حالانکہ فی زمانہ فیصلے کو من وعن تسلیم کر لینا ان کے لیے پھر بھی مفید ہو سکتا ہے۔
ایک تسلسل
نیب کو بے اختیار کرنے یا اس کے اختیارات کو کم کرنے کے لیے سندھ کابینہ میں پیش رفت ہو چکی ہے اور ایک اندازے کے مطابق سندھ اسمبلی یا کابینہ اس ''اجتہاد‘‘ میں اکیلی نہیں ہو گی بلکہ اگر ظاہر نہیں تو درپردہ اسے وفاق کی بھی تائیدو حمایت حاصل ہو گی کیونکہ وفاق بھی نیب کے ہاتھوں کچھ زیادہ خوشی نہیں ہے جو حالات کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہو چکی ہے کہ اب زیادہ دیر تک حکمرانوں کی انگلیوں پر ناچنا اس کے لیے ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ کرپشن کے سب سے زیادہ الزمات انہی دوپار ٹیوں اور ان کے قائدین کے خلاف ہیں اور بہت سے معاملات ، انکوائریاں اور مقدمات ابھی تک التوا میں ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ کرپشن کے حوالے سے صورت حال وہ پہلی جیسی نہیں رہی۔ عوام اور سوشل میڈیا میں اس کے خلاف نفرت کے شدید جذبات پیدا ہو چکے ہیں لیکن ان دو جماعتوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہے ۔ ایک سندھ اور دوسری پنجاب میں اپنی ڈگر چھوڑنے کو تیار نہیں ۔
آج کا مطلع
ہمارے ساتھ وہ ظاہر ہے جو کچھ کرنے والا ہے
اور اس کے ساتھ ہی الزام جس پر دھرنے والا ہے