گھبرانے والا نہیں، ہاتھ صاف ہیں: وزیراعظم
وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''گھبرانے والا نہیں ہوں، میرے ہاتھ صاف ہیں ‘‘ کیونکہ پانچ وقت صابن سے ہاتھ مل مل کر دھوتا ہوں اور سارا میل کچیل اور آلائشیں صاف ہو جاتی ہیں۔ مخالفین سازش کرنے کی بجائے میدان میں آ کر مقابلہ کریں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مقابلہ صرف میرے ساتھ نہیں بلکہ ساری انتظامیہ اور پنکچروں سے بھی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ '' جے آئی ٹی جو کر رہی ہے سب جانتے ہیں‘‘ صرف مجھے اور برخورداران کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے ساتھ بھی یہ سب کچھ ہو سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ '' عمران خان کہتے ہیں کہ نواز شریف کواڈیالہ جیل میں دیکھ رہاہوں‘‘ اور یہ باقی جیلوں کی توہین ہے کیونکہ ملک میں ایک سے بڑھ کر ایک جیل موجود ہے اورکسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرنا چاہیے اور مساوات سے کام لینا چاہیے بلکہ میں اپنی پسند کی جیل کا بھی انتخاب کر سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''کوئی ہمیں ترقی کے سفر سے روک نہیں سکتا ‘‘ کیونکہ ترقی کے سفر کا مطلب ہی خدمت کا سفر ہے جو ہم روز اول سے کر رہے ہیں جو عدلیہ سمیت سب کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ انہوں نے کہا کہ '' سازشوں کے خلاف تمام آپشنز استعمال کریں گے ‘‘ جن کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے اور جو وزرائے کرام اور دیگر معززین کے جوڈیشل اکیڈمی کے سامنے دیئے جانے والے بیانات سے صاف ظاہر ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہو سکا کریں گے کیونکہ محبت اور جنگ میں ہر چیز روا ہوتی ہے اور جس کا ہمیں اور سپریم کورٹ کو خاطر خواہ تجربہ بھی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' جو الیکشن نہیں جیت سکے وہ ہمارے خلاف سازشیں کر رہے ہیں‘‘ حالانکہ جو کچھ سپریم کورٹ میں ہونے جا رہا ہے اس کے بعد ہمارے خلاف سازشوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی کیونکہ یہ تو مرے کو مارے شاہ مدار والی بات ہو گی، ہیں جی ؟ آپ اگلے روز حویلی بہادر شاہ میں پاور پلانٹ کا افتتاح کر رہے تھے۔
پانامہ کے افسانے اور وزیراعظم کے
اعمال نامے کا کوئی مقابلہ نہیں: شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''پانامہ کے افسانے اور وزیراعظم کے اعمال نامے کا کوئی مقابلہ نہیں ‘‘ اوریہ اعمال نامے کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہر کوئی جانتا ہے کیونکہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آئندہ وزیراعظم کے لیے کیپٹن صفدر کا نام لیا جارہا ہے اور میں اور حمزہ شہباز کسی کو نظر ہی نہیں آ رہے جبکہ یہ ٹھیک ہے کہ مریم نواز کا بھی اس کیس میں مستقبل تاریک ہو جائے گا کیونکہ اگر وہ اس کیس سے بچ نکلیں تو ڈان لیک میں دھرلی جائیں گی کیونکہ بھائی صاحب کی فراغت کے بعد یہ معاملہ بھی کھل کر سامنے آ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ '' اگر پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو ہمیں سب کا کڑا احتساب کر نا ہو گا ‘‘ جبکہ ہمارے بعد چند لوگ ہی رہ جائیں گے، ویسے بھی ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دودھ کادودھ اور پانی کا پانی کرنا ہو گا ‘‘ اور اگر واقعی ایسا ہو گیا تو ہمارا قصہ تمام ہی سمجھیے۔ انہوں نے کہا کہ ''قوم یاد رکھے گی کہ ایک ایسا وزیراعظم آیا تھا جس نے اندھیروں کو اجالوں میں بدل دیا تھا ‘‘ اور یہ کام اگرچہ ہمارے پہلے وعدے کے مطابق چھ ماہ میں ہونا تھا اور اب 2016ء تک ہوتا نظر نہیں آ رہا تو آپ بتائیے کہ جن چیزوں کے وعدے اشتہارات میں کیے جا رہے ہیں کیا آپ ان پر یقین کر رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ''پاور پلانٹ کا یہ فیصلہ نواز شریف کے سریر تاج کی حیثیت رکھتا ہے ‘‘ جبکہ بادشاہوں کے لیے تاج ایک ضروری چیز ہوتی ہے اور وہ ابھی تک بے تاج بادشاہ ہی چلے آ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ '' اس فیصلے کو قوم بھلا نہیں پائے گی ‘‘ اگرچہ قوم کی یادداشت مہنگائی، بے روز گاری اور قرضوں کے بوجھ سے پہلے ہی کافی مخدوش ہو چکی ہے انہوں نے کہا کہ '' پاکستان معاشی طور پر ایک مضبوط ملک بننے جا رہا ہے ‘‘اور یہ بات مجھے اسحق ڈار صاحب نے خود بتائی ہے ، اگرچہ وہ جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد سے خاصے مخبوط الحواس ہو چکے ہیں۔ آپ اگلے روز وزیراعظم کے ساتھ افتتاحی تقریب میں شامل تھے۔
اور اب خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل :
کوئی اُمید نہیں، انتظار پھر بھی ہے
چُھپا ہُوا ہے، مگر آشکار پھر بھی ہے
اگرچہ خاص توجہ نہیں کوئی ہم پر
زمانہ اپنے لیے سازگار پھر بھی ہے
ہمارا قافلہ گُزر انہیں ادھر سے ، مگر
ہماری راہگزر پر غبار پھر بھی ہے
ترے خلاف بغاوت بھی کر چکا ہے، مگر
دل آج تیرے لیے بے قرار پھر بھی ہے
ہے اس میں ساتھ گزارے ہوئے دنوں کی مہک
ہواجُدائی کی ہے، خوشگوار پھر بھی ہے
اُس انجمن میں پذیرائی تو نہیں اِتنی
وہاں ہمارا شمار وقطار پھر بھی ہے
یہ کیا طلسم ہے، وعدہ خلاف ہو کر بھی
جو شہر بھر میں ترا اعتبار پھر بھی ہے
ہمارے ساتھ وہ انصاف بھی نہیں کرتا
ہمارے سامنے ایماندار پھر بھی ہے
اگرچہ دیر سے پت جھڑ لگی ہوئی ہے، ظفرؔ
خزاں کی شام پہ رنگِ بہار پھر بھی ہے
آج کا مقطع
آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں‘ ظفرؔ
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف