"ZIC" (space) message & send to 7575

ڈاکٹر شہزاد کریم بھٹی سے شکیلہ جبیں تک

وقاص قاضی جو میرے برادرِ نسبتی قاضی انعام الحق کے پوتے اور قاضی ضرغام الحق ایڈوکیٹ کے صاحبزادے اور یہاں پر ایک بینک میں منیجر ہیں۔صبح ان کا فون آیا کہ آپ کے بڑے چاہنے والوں میں سے ایک ڈاکٹر صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ عام طور پر تو میں ایسے حضرات کو یہ کہہ کر ٹال دیتا ہوں کہ میں ادھر فارم ہائوس پر ہوتا ہوں جہاں پہنچنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور اب چونکہ وقاص خود ان کے ساتھ آ رہے تھے، اس لیے میں انکار نہ کر سکا۔
یہ ڈاکٹر شہزادکریم بھٹی تھے جو لاہور جنرل ہسپتال میں نیورو سرجن ہیں۔ دیگر باتوں کے علاوہ کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جو میں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے سرکاری ہسپتالوں کی حالتِ زار پر فکر مندی کا اظہار کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ اس علاقے کا سب سے بڑا ہسپتال ہے اور دور ونزدیک سے زیادہ سنجیدہ، اور پیچیدہ امراض میں مبتلا لوگ ادھر ہی کا رخ کرتے ہیں اور گنجائش نہ ہونے کے باوجود ہم انہیں کہیں اور بھیج نہیں سکتے اسی لیے ہجوم کی صورت حال ہے کہ مثلاً جہاں پچاس ساٹھ مریضوں کا سی ٹی سکین ہمیں ایک وقت میں کرنا ہوتا ہے وہاں ہمیں کم وبیش اڑھائی سو مریضوں سے عہدہ برآہونا پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور میں جناح ہسپتال وہ آخری ہسپتال ہے جو جنرل ضیاء الحق نے بنوایا تھا۔ اس کے بعد یہاں اس طرح کا کوئی ترددّ نہیں کیا گیا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میں شوکت خانم کینسر ہسپتال میں بھی کام کرتا رہاہوں۔ ان کے مطابق میں نے عمران خان کو وہاں ایک بار بھی نہیں دیکھا۔ کہیں پانچویں منزل پر ان کا دفتر ہے جہاں وہ پچھلی طرف سے آتے ہیں اور اسی راستے واپس چلے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ دنیا کا یہ واحد ہسپتال ہے جہاں کینسر کے غریب مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے جس میں دو دو لاکھ روپے کے انجکشن بھی شامل ہیں۔ قلیل طبقہ ایسے مریضوں کا بھی ہے جن سے علاج کے باقاعدہ پیسے لیے جاتے ہیں ان میں اور مفت کے مریضوں میں علاج اور نگہداشت وغیرہ کے ضمن میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔ دستخط کرانے کے لیے ''آبِ رواں ‘‘ کے چوتھے ایڈیشن کا ایک نسخہ بھی ہمراہ لائے تھے۔ میں نے اپنی روداد بھی سنائی جس پر انہوں نے متعدد مفید مشورے دئیے۔ آج کے فون کرنے والوں میں گوجرہ سے اسلم عارفی بھی تھے۔ کہہ رہے تھے کہ میرا شعر جو آپ نے اس طرح درج کیاہے ؎
ہمارے دل پہ پائوں دھر رہی ہے
محبت پیش قدمی کر رہی ہے
وہ دراصل اس طرح سے ہے ؎
ہمارے دل پہ پائوں دھر چکی ہے
محبت پیش قدمی کر چکی ہے
اگر آپ کہیں تو میں ساری غزل کو تبدیل کر لوں۔ میں نے کہا کہ آپ کا شعر مجھے اس طرح سے یاد تھا۔ تاہم آپ اپنے شعر کو اسی طرح رہنے دیں۔
ڈاکٹر صاحب اُٹھ کر گئے تو ہمارے ایک اور عزیز جاوید فاضل نے بھی روٹین کا چکر لگایا۔ کہہ رہے تھے کہ سیالکوٹ کی ملنگنی والا آپ کا
کالم خوب تھا۔ شاعری کی تو مجھے کچھ زیادہ سمجھ نہیں ہے البتہ شکیلہ جبیں کی شخصیت نے بے حد متاثر کیا۔ شکیلہ کا یہ بھی ہے کہ بچپن بلکہ لڑکپن میں والدہ کی طرف سے انہیں بہت مار پڑاکرتی تھی کیونکہ حرکات و سکنات ہی ایسی تھیں۔ مثلاً گائوں کی جو عورتیں ان سے ملنے آیا کرتی ہیں ان میں سے ایک معمر خاتون تھی جس کا بازو ایک عرصے سے صحیح کام نہیں کر رہا تھا۔ میں نے اسے کہا تھا کہ آپ کی اتنی بہوئیں ہیں، ان سے مالش کروالیا کریں۔ اس نے جواب دیاکہ بہوئیں کب یہ کرتی ہیں۔ چنانچہ میں نے زیتون کا تیل نکالا اور اس کی مالش کر دی۔ بتایا کہ ایسے کام میں چھپ کر کیا کرتی تھی کہ گھر والوں کو پتا نہ چلے۔ لیکن اس بے وقوف عورت نے میری والدہ کو ایک دن بتا دیا۔ والدہ نے یہ کہتے ہوئے میری خاصی دھلائی کر دی کہ اگر محلے والوں کو اس بات کا پتا چل گیا تو ہماری کیا عزت رہ جائے گی۔ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے اور واقعات بھی بتائے۔ مثلاً چھت کے پنکھے سے ٹکرا کر ایک لالی زخمی ہو گئی تھی جسے انہوں نے کچھ روز تک ''علاج ‘‘ کرنے کے بعد ٹھیک کر دیا۔
شکیلہ کا ذکر خیر تو آ ہی گیا ہے ، اب خانہ پری کے طور پر ایک نظم بعنوان ''رب آوڑد امیری جُوہ‘‘ : 
اوہ کھیڈے لکن میٹی
مارے ادھی راتیں سیٹی
میری ہک وچ وجّے گیٹی
لیندا چُپ چپیتے چُھوہ
میرا کردا رنگ گلابی
میرے دوویں نین مہتابی
میتھوں منگدا گل جوابی
میں ڈِگاّں ڈُونگھے کُھوہ
رب آوڑدا مری جُوہ
نہ مُکھ میرے نوں ڈوبے
نہ پیراں ہیٹھاں کھوبے
بھاگی کردا میں جئے ٹوبے
میں بیٹھاں بیڑی نوح
رب آڈردا میری جُوہ
مُڑلتھ جاندا اے پانی
فیر چھیڑے نویں کہانی
دُکھ وسدا، باقی فانی
میرا راضی کردا رُوح
رب آ وڑدا میری جُوہ
آج کا مطلع
آتے جائو، جاتے جائو
پیتے جائو، کھاتے جائو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں