"ZIC" (space) message & send to 7575

دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا

عمران خاں کا یہ کہنا کہ نوازشریف فارغ ہو کر سیدھے جیل جائیں گے‘ ہرگز کافی نہیں ہے کیونکہ موصوف کو جیل بھیجنے کا کیا فائدہ‘ اگر اس غریب ملک کا لوٹا ہوا اربوں کھربوں روپیہ پاکستان کو واپس نہیں ملتا۔ اگر یہ پیسے انہیں ہضم ہو جاتے ہیں تو یہ خوشی سے جیل چلے جائیں گے۔ لندن کے فلیٹس تو محض آئس برگ ہے‘ اصل برف کا پہاڑ تو ان کے نیچے ہے جس کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں ہے۔ ان کی رہائش گاہیں کرنسی نوٹوں اور سونے کی ڈلیوں سے بھری پڑی ہیں جو کسی کی نظر میں نہیں اور جو پیسہ استثناکے پردے میں باہر جاتا ہے وہ الگ ہے کیونکہ ایئر پورٹس پر ان کے بیگ کھلوا کر کوئی نہیں دیکھ سکتا۔
یہ تو اقتدار میں آتے ہی صرف پیسہ بنانے کے لئے ہیں اور پیسہ انہوں نے اتنا بنا لیا ہے کہ ان کی آنے والی نسلوں تک کے لیے کافی ہے۔ اس لیے انہیں اقتدار سے چھٹی کروانے سے ہی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ ساری لوٹ مار اگر ان سے اگلوائی نہیں جاتی تو انہیں پھر بھی ستے خیراں ہیں۔ نیز یہ کہ اس لوٹ کھسوٹ میں ان کے علاوہ ان کے بے شمار چہیتے بھی شامل ہیں جن میں اسحاق ڈار جیسے ان کے ساتھی اور درجنوں بیورو کریٹس بھی شامل ہیں جنہیں ان کی پشت پناہی حاصل
رہی ہے اس لیے جھاڑو پھیرے بغیر مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
اور یہ کام جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے کچھ اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ منقول ہے کہ پنجاب پولیس کا ایک اے ایس آئی کسی کام کے لیے مصر گیا اور پھرتا پھراتا ان کے بڑے میوزیم میں جا پہنچا۔ اسے معلوم ہوا کہ آثار قدیمہ کے کچھ ماہرین ایک ممّی کی عمر کا تعین کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور یہ مسئلہ اُن سے حل نہیں ہو رہا۔ اے ایس آئی نے کہا کہ اسے میرے حوالے کریں تو میں آپ کی مشکل آسانی کر سکتا ہوں۔ صرف مجھے تنہائی درکار ہے۔ وہ مان گئے اور ممّی اس کے سپرد کر کے کمرے سے باہر نکل گئے۔ کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد اے ایس آئی نے انہیں بلایا اور بتایا کہ اس کی عمر دو ہزار چھ سو سات برس اور تین ماہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کیسے پتا چلا تو وہ بولا۔
''خود بک پڑی ہے‘‘
سو ان سب کے لیے ایک اے ایس آئی ہی کافی ہے جو سب سے سارا کچھ اگلوا کر ہی چھوڑے گا عآزمائش شرط ہے۔کرپشن ہی کے موضوع پر حال ہی میں وزیراعظم صاحب کا فرمان تھا کہ واقعی کرپشن بہت ہے لیکن اگر کرپشن کو روکیں تو ترقی رک جائے گی۔ صورتحال تو یہ تھی کہ آئے روز اربوں کی کرپشن کے سکینڈل سامنے آ رہے تھے لیکن دعویٰ یہی کیا جا رہا تھا کہ اگر ایک دھیلے کی کرپشن بھی ثابت ہو جائے تو ہمارا نام بدل دیا جائے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر اوپر کرپشن نہیں ہے تو آپ کے نیچے یہ بے حساب کرپشن کیسے ہو رہی ہے جسے روکنے سے وہ تیزرفتار ترقی رک جاتی جو بجائے خود ایک فراڈ اور جھوٹ سے زیادہ نہیں تھی۔ ان کے قریبی حلقوں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہم مطمئن اس لیے ہیں کہ اس دفعہ امریکہ نوازشریف کو بچا لے گا کیونکہ امریکہ مودی کا اتنا ہی یار ہے جتنا نوازشریف مودی کا ہے۔ اس لیے اس شعر کے مطابق کہ ؎
دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست
در پریشاں حالی و درماندگی
سو مودی سے وزیراعظم کی یہ پریشانی اور درماندگی کیسے دیکھی جائے گی۔ پہلے تو نوازشریف کو سعودی عرب نے پرویز مشرف کے چنگل سے چھڑوایا تھا لیکن اب ایران کے معاملے پر شہزادے بھی ان سے ناخوش ہیں۔
دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس جس نے سرعام دو پاکستانیوں کو دن دیہاڑے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اسے چھڑوانے کے لئے وزیراعظم گیلانی اور جنرل شجاع پاشا سب سے آگے تھے جبکہ وزیراعلی پنجاب جن کی ناک کے عین نیچے یہ سانحہ رونما ہوا تھا بڑے بھائی صاحب کی عیادت کے بہانے لندن جا پہنچے تھے۔ اس لیے ہمیں تو امریکہ کی ایک گھر کی ہی کافی ہے اور بیڑہ پار ہو جائے گا۔
تاہم اگر اس فارمولے میں ذرا سی بھی صداقت موجود ہے تو یہ بجائے خود ہمارے اہل سیاست عدلیہ اور عسکری قیادت کے لیے ایک کھلا چیلنج ہو گا اور اگر ایسا ہو جاتا ہے تو جو حلقے ہمیں ایک آزاد مملکت کی بجائے امریکہ کا مزارع گردانتے ہیں‘ اس طعنے کی تصدیق کے لیے یہی مثال کافی ہوگی۔
اس فیصلے کے بعد حکومتی زعما کے چہروں پر ندامت کے کوئی آثار ہونے کی بجائے ایک دیدہ دلیری پائی جاتی ہے جیسے وہ اس فیصلے یا رپورٹ کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے اور کسی غیبی اشارے کے منتظر ہیں۔ قانونی لڑائی لڑنا ان کا حق ہے لیکن یہ بھی اگر کسی امپائر کی انگلی اٹھنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں تو الگ بات ہے۔ ویسے بھی یہ ماشاء اللہ ایک محیرالقول ملک ہے اور اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مگر یہ بھی ہے کہ اگر امپائر کی انگلی اٹھنا ہوتی تو یہاں تک نوبت ہی نہ آتی اور جے آئی ٹی وغیرہ کا گھونٹ کب کا بھرا جا چکا ہوتا۔ کیونکہ یہ حکومت کی تبدیلی نہیں‘ بلکہ بادشاہت کا خاتمہ ہے۔
چنانچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے لیکن اس کی اپنی حکمتیں ہیں اور وہ رسی دراز بھی کرتا ہے اور اس کا فرمان یہ بھی ہے کہ جس قسم کے لوگ ہوں گے وہ ان پر حکمران بھی اسی طرح کے مسلط کرتا ہے۔ سو‘ اگر یہ ہمارے ا عمال کی سزا ہے تو ہمیں بہرصورت یہ بھگتنی ہو گی اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ ہم نے اب تک یہ سزا کافی بھگت لی ہے تو وہ ہماری خلاصی کا سامان بھی کر سکتا ہے اور اگر نوازشریف اور ان کے مصاحبین کے برسراقتدار رہنے ہی میں ملک کی بہتری ہے تو ہمیں یہی کہنا ہو گا کہ ع
سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے
آج کا مقطع
ظفر‘ سب کچھ لُٹا بیٹھے سفر میں
بغل میں رہ گیا بستر پرانا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں