"ZIC" (space) message & send to 7575

سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان‘ ازسید انیس شاہ جیلانی

...کنور صاحب نے مشورہ دیا اور بتایا کہ پنڈت جی کی ایک چابی ہے میرے پاس جس طرح قصے کہانیوں میں سُنتے چلے آئے ہیں۔ کوہ قاف کی وادیوں میں مقید پنجروں میں بند پرندے کو پکڑو تو جس کی رُوح اُس پرندے میں ہو گی‘ وہ ذی روح جہاں بھی ہو گا پھڑکنے تڑپنے لگے گا۔ نہرو کی رُوح جوش میں بند ہے‘ چلو جوش کے ہاں چلیں۔ جوش کو لے کر ہم قصر وزارت میں وارد ہوئے۔ پنڈت جی بالائی منزل کی سیڑھیاں اُتر رہے تھے۔ ایک لڑکا کسی نواب کا سفارشی خط لئے پہلے سے موجود تھا‘ مضطرب اور بیقرار۔ دو تین سیڑھیاں چڑھ کر مو￿دبانہ خط پیش کیا۔ نہرو نے کہا کیا ہے‘ کیا ہے‘ سائل نے کہا خط لایا ہوں نوکری کے لئے جھڑک دیا‘ کیا نوکری میری جیب میں رکھی ہے۔ خدام سے کہا بھگائو اسے۔ اب ہماری باری تھی۔ جوش صاحب آگے بڑھے اور کہا جائیداد کی ضبطی وغیرہ کا معاملہ ہے۔ نہرو بولے۔ یہ کام مجھ سے تو متعلق نہیں۔ یہ تو محکمہ آبادکاری کا کام ہے۔ جوش نے تن کر کہا‘ یہ میں وقت کے وزیراعظم سے سُن رہا ہوں کہ میرا کسی محکمے یا اس محکمے سے تعلق نہیں۔ نہرو کوئی جواب دیئے بغیر ملاقاتیوں کی طرف 
بڑھ گئے۔ جوش سخت کبیدہ خاطر اور غضبناک۔ ہمارے پیچھے پیچھے پنڈت جی بھی باہر نکلے۔ ضرورت مند لڑکا سہما ہوا ایک کونے میں موجود دیکھا تو اُسے بُلا کر اپنی موٹر میں بٹھایا۔ مجھ سے کہا میاں یہ تو فلاں صاحب کا مسئلہ ہے‘ جوش صاحب سے کہو اُن صاحب کے پاس جائیں۔ اب جوش صاحب اکڑے تو بہت لیکن ہم کہاں چھوڑنے والے تھے‘ جوش صاحب کو گھسیٹ کر لے گئے۔ افسر متعلقہ دروازے پر ہمارا انتظار کرتا ہوا پایا گیا۔ دیکھتے ہی لپک کر آیا اور کہا‘ آپ حضرات نے پنڈت جی سے کیا کہہ دیا‘ اُن کا فون آیا کہ جوش صاحب آ رہے ہیں‘ غصے میں ہیں‘ خیال رکھنا۔ درخواست ہم نے اُس کے ہاتھ میں تھمائی اور کام بن گیا۔ دوسرا واقعہ یہ کہ جوش صاحب کے ہندوستان چھوڑنے کا غم تو ہم سب کو تھا‘ یہی حال پنڈت جی کا تھا۔ پاکستانی شہریت اختیار کرنے کے بعد جوش دلّی آئے۔ پنڈت جی سے ملے اور کہا‘ کھانا میرے ساتھ کھائیے۔ پنڈت جی نے کہا میرا گھر آپ کا گھر ہے۔ یہیں آ جائیے۔ کھانے کا کیا ہے لیکن جوش صاحب کا اصرار دیکھ کر نہرو مان گئے۔ وزیراعظم جہاں مہمان ہو‘ ضابطے کی
ایک کارروائی یہ بھی ہوا کرتی ہے تحقیق کرو صاحب خانہ کس کردار اور اوصاف کا حامل ہے۔ خفیہ رپورٹ یہ آئی کہ جوش صاحب جن کے ہاں اُترے ہیں وہ بہت اُستاد کالے دھندے کے ہیں۔ چور بازاری کے بادشاہ اور دھوکے باز ہیں۔ یہ سب کچھ تھا مگر نہرو وہاں گئے۔ اس تاکید کے ساتھ کہ لوگ کم بلائے جائیں۔ بے تکلف مدعوئین کے ساتھ کھانا کھا کر چلے آئے۔
یوم آزادی کی تقریبات کا ایک حصہ مشاعرہ اور راگ رنگ۔ کنور صاحب ہی راوی ہیں۔ دربار سرکار کی سرپرستی کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ تین لاکھ تو اُٹھ گئے لیکن ہم سب کارکنوں نے لال قلعے کو دولہن کی طرح سجا دیا۔ آدھے گھنٹے کا کہہ کر نہرو جی اڑھائی گھنٹے بیٹھے رہے۔ مکیش اور محمد رفیع کو بھی سُنا اور بے لگام۔ اس پر یہ کہ پئے ہوئے‘ سرشار اور مدہوش الگ۔ آتے ہی تقریر جھاڑ دی‘ جواہر لال ہمارے ساتھی ہیں وہ اُدھر نکل گئے۔ ہم اِدھر۔ اب چلے ہیں یہ مُلک چلانے‘ حکومت کرنے۔ ان کی تو وردیاں ابھی تک ہمارے ہاں پڑی ہوئی ہیں۔ نثر کے بعد شعر بھی عطا ہوئے‘ زد پر پنڈت جی ہی رہے ؎
خم کو توڑیں گے یہ کھلونے‘ دیکھو
چہرے جیسے پھٹے بچھونے‘ دیکھو
جس کوہ سے گر چکے ہیں لنکا والے
اُس کوہ پر چڑھ رہے ہیں بونے دیکھو
کنور صاحب کہتے تھے میرے تو ہوش اُڑ گئے۔ رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔ یہ جوش نے کیا کیا پانچ بجے صبح دستک ہوئی۔ دیکھا خلاف معمول جوش کہنے لگے یار وہ ہم سے رات غلطی ہو گئی ع
ہائے اُس زوپشیماں کا پشیماں ہونا
جوش صاحب آپ سے غلطی کیا ہوئی‘ آپ نے تو ہمارا کُونڈا کر دیا۔ ہم تو بوریا بستر باندھ چکے۔ پتہ ہی کٹوا دیا۔ اب کیا کریں۔ چلیے اب گھُٹنے ٹیکو۔ چل کر پہنچے حضور دوست میں ؎
بلا کشان محبت بکوئے یار روند
نوکر چاکر جوش صاحب کا پاس لحاظ کرنے والے‘ مرتبہ مقام اور مراسم کی نوعیت جاننے والے۔ لہذا فوراً اُوپر اطلاع دی گئی۔ جواب آیا آ جائیے۔ کنور صاحب کہتے تھے۔ ہم ڈرے ہوئے سہمے ہوئے اُوپر گئے۔ پنڈت جی کاغذات دیکھنے اور لکھنے میں منہمک رہے۔ ہم اس ادا کو خفگی کے اظہار کا ایک حربہ سمجھے۔ تھوڑی دیر بعد آنکھ اُٹھا کر دیکھا اور بٹن دبا کر نوکر کو بلایا اور حکم دیا اندرا جی‘ وجے لکشمی اور سید محمود وغیرہ سب کو بلائو۔ وہ سب آئے تو ہم سب سے بھی کہا بیٹھ جائیے۔ ہمہ تن گوش۔ ارشاد ہوا‘ جوش صاحب! سرکاری اعتبار سے تو ہماری حاکمانہ تجویزیں اور منصوبہ بندیاں بہرحال ہیں لیکن ذاتی طور پر میں‘ آپ نے جو حق گوئی کا حق ادا کیا تھا اس سے متفق ہوں۔ میں نے اپنے مہمانوں اور افراد خانہ کو اس لیے بلا لیا کہ یہ بھی رات کی بات سے حسب توفیق محظوظ ہوں۔ جوش صاحب نے بہت کہا‘ صاحب وہ تو ہم نشے میں تھے‘ یہ تھا‘ وہ تھا لیکن فیصلہ دو ٹوک ہو چکا تھا‘ پنڈت جی نے ایک بھی سُن کے نہیں دی‘سن کر ہی دم لیا...
آج کا مطلع
یہ میری اپنی ہمت ہے جو میں دُنیا میں رہتا ہوں
مگر مچھ سے نہیں بنتی مگر دریا میں رہتا ہوں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں