"ZIC" (space) message & send to 7575

امجد بابر کی شاعری

امجد بابر گوجرہ میں وکالت کرتے ہیں۔ میں نے ان سے یہ نظمیں بطور خاص منگوائی تھیں۔ ملاحظہ ہوں:
حیرت ہے
دل کی تختی پر؍ آنکھوں کے صحرا میں ؍ ٹپ ٹپ گرتے خوابوں پر ؍کائنات میں بدلنے والے ؍لمحہ لمحہ مناظر پر نیلے سمندر میں بارش کی رم جھم پر؍سبز میدانوں کی تخم ریزی سے ؍تخلیق شدہ ثمرات کے فضل ربی پر ؍یادوں کے بازار میں چلتے پھرتے سایوں کے اوراق کی خستہ حالی پر ؍ایک ناکام محبت کی خستہ حالی پر ؍ایک ناکام محبت کی بربادی پر؍حیرت ہے؍ایک مکمل حیرت ہے
تیسری آنکھ کا نوحہ
پہلے درجے کی آنکھ ؍حُسنِ انتظام کے کارخانے میں؍چیزوں کی شکست و ریخت دیکھتے ہوئے؍پتھرا جاتی ہے؍روتی نہیں؍دوسرے درجے کی آنکھ؍غلامی کی نحوست سے آگاہ؍ رواں دواں لمحات کے غُبارمیں ؍ ریشم بُنتے بُنتے؍کولہو کے بیل سے پوچھتی ہے ؍کیا ہمارا سفر...صفر ہے؟؍ تیسرے درجے کی آنکھ؍سماجی ماحول کے جبری تسلّط میں ؍تاریک لمحوں کے گم شدہ حصار میں؍کفِ افسوس ملتی ہے ؍ بے خبری کی خاک چاٹتی ہے۔
واردات
نیند دبے پائوں چلی آتی ہے؍ جسم سونے سے انکاری ؍سپنے اشتہاری ؍ دل میں ڈر کے سندیسے بھاگتے پھرتے ہیں ؍خوف چھلاوہ بن کر دستک دیتا ہے؍ تیری یاد ؍ آسیب کی مانند ؍جنتر منتر ؍آنکھیں ستارہ ہو جاتی ہیں؍شب بھر ؍یادوں کی پٹاری کھلتی جاتی ہے ؍ صبح سویرے ؍ واردات کے نقش مٹانے کی خاطر؍ خود کو تازہ اخبار بنانا پڑتا ہے۔
تیرے لیے ایک نامکمل نظم
تیرے لیے اک شعرکہنا تھا؍لفظوں کے گودام خالی پڑ گئے؍ جذبے؍ سمندری تہہ میں چھپ گئے؍خیال؍فشارگاہ میں روپوش ہوئے؍تمہیں محض؍آنسوئوں سے دیکھا جا سکتا ہے ؍ ہچکیوں میں...
دل کی آبدوز میں
دل کی آبدوز میں ؍ تُمہیں کتنی دیر رکھا جائے ؍سمندر سے مشورے کر لو ؍ تمہیں بھُلایا بھی نہیں جا سکتا۔ تمہارے گھر کی بالکونی دکھاتی ہے ؍ پیلے پھولوں پر بیٹھی تتلیاں خودکشی کر رہی ہیں؍اور تُم نے ؍ خوف سے دروازہ بند کر لیا ہے ؍ محبت؍ رابطے‘ گفتگو کی طمع سے پاک لذت؍البتہ خیال کے مراقبے سے ؍ اس کی جڑیں تازہ رہتی ہیں۔
وُہ مجھے جانتا ہے
مظاہر فطرت میں چھپا بیٹھا ہے ؍ اجرام فلکی کے جلو میں ؍ دلوں کے اندر؍ معلوم‘ نامعلوم وسعتوں میں؍سمندر کی تہہ میں رہتا ہے ؍ نجانے کہاں ہے ؍ یہیں کہیں ہے ؍ میرے آس پاس کے یقین میں؍ ناممکنات کی طنابیں ؍لفظ کُن فیکوں تک آتے آتے ؍ معدوم ہو جاتی ہیں ؍ وہ میری آواز سنتا ہے ؍ مجھے جانتا ہے۔
سرد سمے کی دھوپ
کُرّہ ارض پر ؍ عدم توازن بکھرا پڑا ہے ؍ حدود جہاں کی معیت میں ؍ آنکھیں برف ہو رہی ہیں ؍ مقدس صحیفوں کی خوشبو؍ دانش کے حکمت آموز اوراق میں لپٹی ہے؍دُعائوں کے پُھول مُرجھائے ہوئے ہیں ؍ فلک پر سچ کا پرچم اُٹھائے ؍ فرشتوں نے جلسہ عام کیا ہے ؍ جہان عالم تغیر کی رو میں بہا جا رہا ہے ؍ سورج کی کرنیں دیکھنے والے چلے آ رہے ہیں۔
رات
رات؍میرے باطن میں چھپی بیٹھی ہے؍وقت کا کاکروچ؍ پرانے خوابوں کا ناشتہ کر کے؍ ساحل سمندر کی ریت پر ؍ کچھ ان کہے لفظوں کے نشاں ڈھونڈتا ہے؍ نارسائی کے سائبان تلے؍ لہروں کی تال میل سے بنی آواز گونجتی ہے؍میرے حواس کی آبدوز ڈوب گئی؍کوئی میرے خیال کے ٹکڑے اکٹھے کرے؍ اور مجھے بھوک کی چمنیوں کے دھوئیں سے بچا کر ؍کسی نادیدہ جزیرے کے ریوڑ میں؍ چھوڑ آئے ؍ تاریخ انسانی میں ؍ عمر رواں کی خراشیں؍ کبھی زخموں سے خالی نہیں ہوتیں؍محبت کے نقش و نگار؍پیوند کاری کے ذائقے سے محروم ہو جائیں؍ تب آنکھیں ٹیڑھی ہو جاتی ہیں؍ سانسیں اُکھڑنے لگتی ہیں؍گیان میں؍ چند تصویریں رہ جاتی ہیں؍ یا پھر...آنسو ؍ بارش بن کر گرتے ہیں
نیویارک
نیویارک!؍ تُو میرے دل میں بستا ہے ؍ تُجھے پتا ہے؍ میرا کوئی تھا؍ جو یہاں پہ رہتا ہے؍ وہ خوش تو ہے نا!؍ اُس نے میری بے وفائی کا غم سہا ہے ؍ کیا کہا؟ میں نے جھُوٹ کہا ہے؍ نیویارک! تُو میری آنکھ کا مرکز ہے؍ تیرے بازاروں‘ گھروں کو دیکھتا رہتا ہوں میں؍ اور اُس شخص پہ تنہا سوچتا رہتا ہوں میں؍ جس نے چُپ سادھ لی ہے؍ موبائل فون بھی بند پڑا ہے؍ نہ سکائپ پہ ملتا ہے؍ نہ کوئی ٹویٹ ؍ پھر بھی کبھی کبھی ہم دونوں؍ ٹیلی پیتھی کر لیتے ہیں؍ دل کے صحرا میں کچھ بوندیں آ جاتی ہیں ؍ فیس بک پر کہیں نہیں؍ نیویارک وہ میرے دل میں چھپا ہوا ہے؍ اور تیرے جسم میں زندہ ہے؍ تُو کیا کہتا ہے؟
محبت کی آخری سطریں
وجود میں؍ خالی پن کی اذیت کراہتی ہے ؍ بے ترتیب سانسیں؍ آنکھوں کی سُرخی سے؍ خراج طلب کرتی ہیں؍ خواب کی دیوار؍ انگاروں سے مخاطب ہو کر؍ سرکتی ہے؍ تمہارے شوق کے نشے میں گُم وصال؍ آہیں بھرتا ہے؍ تمہاری یاد کا نشان عظمت؍ سینے پہ سجائے ؍ کوئی مرتا ہے؍ جہان زندگانی میں؍ ایسا ہی ہوتا رہے گا؍ فقط چہرے ہی بدلیں گے؍ وفا کی کہانی کا طلسم؍ باقی رہے گا ؍ میں اور تم؍ شاعری کے اوراق میں؍ دیمک کے چاٹنے تلک؍ زندہ رہیں گے۔
آج کا مطلع
پکڑے گئے تو وہ بھی بھُگت لیں گے‘ اے ظفرؔ
فی الحال اُس کے آگے مُکرنا تو چاہیے

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں