"ZIC" (space) message & send to 7575

اکادمی ادبیات اور بُک ہوم کی تازہ مطبوعات

سید ضمیر جعفری‘ شخصیت اور فن
پاکستانی ادب کے معمار کے سلسلے کی یہ کتاب ڈاکٹر عرفان اللہ خٹک کی تالیف ہے جس کی قیمت مجلد 280 اور غیر مجلد 260 روپے رکھی گئی ہے۔ پیش نامہ چیئرمین اکادمی ادبیات ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو کا تحریر کردہ ہے جن کے مطابق سید ضمیر جعفری ایک ہمہ جہت لکھاری‘ اُردو طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کے حوالے سے اُن کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ وہ ایسے صاحبِ استعداد لکھاری تھے جنہیں نثر اور شاعری پر یکساں قدرت حاصل تھی۔ وہ ایسے خوش قسمت شاعروں میں سے تھے جنہیں اپنی زندگی میں بہت شہرت اور عزت ملی۔ کتاب کو اُن کی زندگی اور فن پر روشنی ڈالنے کیلئے مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پسِ سرورق مئولف کی تصویر اور مختصر تعارف درج ہے۔
ناول کا فن
یہ میلان کنڈان کی تصنیف ہے جس کا ترجمہ ارشد وحید نے کیا اور قیمت 200 روپے ہے۔ حرفِ آغاز کے مطابق جو ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو کا تحریر کردہ ہے‘ اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ ناول کے فن پر ایک ممتاز ترین ناول نگار کے خیالات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اگر کسی صنف کے فن پر اسی فن کا ایک تخلیق کار بات کرے تو وہ اس لئے زیادہ اہم ہوتی ہے کہ وہ خود بھی اُس تخلیقی عمل سے گزرا ہوتا ہے جس پر بات کر رہا ہوتا ہے لہذا وہ اسے عام نقادوں سے بہتر طور پر بیان کر سکتا ہے یہ اس سلسلے کی تقریباً ساٹھویں کڑی ہے۔ ناول پڑھنے اور خاص طور پر نوآموز ناول لکھنے والوں کے لئے یہ کتاب ایک دلچسپ تحفے سے کم نہ ہو گی۔
معاصر چینی افسانے
اس کا ترجمہ اور انتخاب مُنیر فیاض نے کیا ہے‘ قیمت 200 روپے ہے‘ یہ 20 افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ٹائٹل اور پسِ سرورق چین کا نقشہ درج ہے۔ اس کا حرفِ آغاز بھی ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو کا تحریر کردہ ہے جس کے مطابق چینی تہذیب کا شمار دُنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے اور چین میں ادب کی روایت اتنی ہی پرانی ہے جتنی چینی تہذیب کی۔ گوئٹے نے اپنے ایک شاگرد سے کہا تھا کہ چینی دو دو ہزار صفحات پر مُشتمل ہزارہا ناول لکھ چکے ہیں اور یہ لکھے بھی اس وقت جب ہمارے آبائواجداد جنگلوں میں رہتے تھے اور چینی فکشن اس وقت بھی لکھا جا رہا تھا جب مغرب اس صنف کی تہذیب تک سے آشنا نہیں تھا۔
رموزِ شعر
اس کے مصنف احمد مجاہد ہیں اور اس کی قیمت 300 روپے رکھی گئی ہے۔ پسِ سرورق مصنف کی تصویر اور مختصر تعارف سے مزین ہے۔ کتاب میں فن شاعری سے کھُل کر بحث کی گئی ہے جسے چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جو کچھ اس طرح سے ہیں : سحر حلال‘ شعر وشاعر اور منصب ِشاعری۔ فصاحت و بلاغت‘ علامت‘ عروض اور عیوبِ سخن۔ 
سندھی وائی/ کافی
یہ سندھی وائیوں اور کافیوں کا منظوم اُردو ترجمہ ہے جو امیر بخاری نے کیا ہے۔ قیمت 260 روپے ہے۔ مختلف سندھی شعراء کی منظومات کا یہ ترجمہ سندھی ادب کی معروف اصناف کا احاطہ کرتا ہے جو سچل سرمست سے لے کر گلبدن آصف تک جاتا ہے۔ پیش نامہ ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو اور حاصل کلام کے عنوان سے پیش لفظ مصنف کا تحریر کردہ ہے۔ بہتر ہوتا کہ منظومات کا متن بھی درج کر دیا جاتا۔ سرورق پر ایک قلعے کی تصویر شائع کی گئی ہے جو سندھی تہذیب کا ایک جیتا جاگتا نمونہ اور علامت ہے۔
بُک ہوم کی مطبوعات
ابنِ خُلدون
اسے ملک اشفاق نے تحریر کیا ہے اور اس عظیم اسلامی مفکّر کی حیات‘ فلسفہ اور نظریات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ قیمت 600 روپے رکھی گئی ہے۔ انتساب عاطف رحمن اور عظمیٰ رحمن کے دادا محمد صدیق صاحب کے نام ہے۔ ابتداء میں جبران کی ایک نظم بعنوان علم و مسرت کی دیوی ایبا کے نام کا اردو ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب میں ابن خلدون کے فن اور شخصیت کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ سرورق پر ابن خلدون کی تصویر ہے۔ زندگی نامہ کے عنوان سے پیدائش اور وفات وغیرہ کے حوالے سے معلومات ہیں۔
ایڈیسن
یہ عظیم موجد کی داستان زندگی پر مشتمل تصنیف ہے جسے جی گلینوڈ کلارک نے تحریر کیا اور جس کا ترجمہ مطلوب احمد وڑائچ نے کیا ہے۔ پیش لفظ میں بتایا گیا ہے کہ ایک لڑکا جو ریل گاڑی پر اخبارات فروخت کیا کرتا تھا اور جس نے صرف چند مہینے سکول میں تعلیم حاصل کی اور اپنی ذاتی کاوشوں کی وجہ سے کس طرح ایک عظیم موجد بن گیا۔ سرورق پر ایڈیسن کی تصویر ہے۔ کتاب کو 9 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ابنِ سینا اور ابنِ رُشد
دونوں کتابوں کے مصنف ملک اشفاق ہیں جس میں ابن سینا کی زندگی‘ فلسفہ اور نظریات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسری کتاب بھی اسی مصنف کی تحریر ہے۔ دونوں کتابیں ملتِ اسلام کے ان عظیم سپوتوں کے فن‘ زندگی‘ فلسفہ اور نظریات کا احاطہ کرتی ہیں۔ قیمت 600 اور 400 روپے ہے۔ یہ عالم اسلام کی ممتاز ہستیوں کے تعارف کے سلسلے میں ایک نہایت قابلِ قدر کارنامہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنی قابلِ فخر تاریخ سے شناسا ہوتے ہیں۔ ٹھوس اور معلومات افزا مواد پر مشتمل یہ کتابیں ایک قابلِ رشک مجموعے کی حیثیت رکھتی اور ٹھوس مطالعے سے تعبیر کی جا سکتی ہیں کہ یہی وہ ہمارے آباتھے جن کی تعلیمات کو ہم فراموش کر چکے ہیں اور انہیں شائع کر کے بُک ہوم نے قابلِ قدر خدمت سرانجام دی ہے جس پر ناشر رانا عبدالرحمن صحیح معنوں میں مبارکباد کے مستحق ہیں۔
آج کا مقطع
محبّت سربسر نقصان تھا میرا ظفرؔ اب کے
میں اس سے بچ بھی سکتا تھا مگر ہونے دیا میں نے

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں