"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں اُن کی‘ متن ہمارے

نوازشریف کو ریلیف عوامی طاقت دکھانے سے ملے گا : عاصمہ جہانگیر
سپریم کورٹ بار کی سابق صدر اور ماہر قانون دان عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ ''نوازشریف کو ریلیف عوامی طاقت دکھانے سے ملے گا‘‘ اور ظاہر ہے کہ یہ طاقت سپریم کورٹ ہی کو دکھانی ہو گی کیونکہ ریلیف بھی اگر ملا تو وہیں سے ملے گا اور طاقت صرف ڈانگ سوٹے سے دکھائی جا سکتی ہے‘ اس لئے اپنے استقبال کے لئے لوگوں کو اکٹھا کرنے کی بجائے انہیں جھنڈے اٹھا کر جن کے ڈنڈے کافی مضبوط ہوں۔ اسلام آباد کی طرف بھیجنا چاہیے جن کے لئے دیگیں پکوا کر لیجانے کے لئے شہبازشریف کافی ہیں جنہیں سابق تجربہ بھی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سڑکوں پر نکلنا ہو گا‘ سُنیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ شاہراہ دستور کو بند کر دیا جائے‘‘ جبکہ بند کرنے کے لئے باقی سارا مُلک پڑا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ''میں جمہوریت کی حامی ہوں‘ نوازشریف کی نہیں‘‘ لیکن اگر ایسے بیانات کے ذریعے نوازشریف کا بھی اُلّو سیدھا ہو جائے تو یہ ایک الگ بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کوئی بتائے آئی ایس آئی کس قانون کے تحت کام کرتی ہے‘‘ اس کے بعد اس پر غور کرنا ہو گا کہ حکومت جو سب کچھ کرتی رہی ہے وہ کس قانون کے تحت تھا‘ تاہم یہ فیصلہ کافی حد تک مشترکہ لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاناما کیس میں سونا‘ ہیرے اور نوٹوں کی بوریاں نہیں‘ اقامہ نکلا‘ کیونکہ سونا‘ ہیرے اور نوٹوں کی بوریاں سڑک پر نہیں رکھی ہوتیں‘ ان کے لئے محفوظ مقامات اور تھوڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت کو سسلی مافیا کہنے والے اصلی مافیا سے لڑیں‘‘ کیونکہ حکومت بیچاری تو نقل مافیا ہے اس لئے اسے اپنی اصلاح کر کے اصلی مافیا کر کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ اس کے خلاف اس طرح کا فیصلہ دینے کی جرأت ہی نہ کی جا سکے جس کے لئے اسے مافیا کا سسلی ماڈل سامنے رکھنا ہوگا‘ تاہم اس بیان سے بھی جتنی آسودگی مل سکے‘ غنیمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''نیب کے معاملے پر ایک جج کو تعینات کر دیا گیا‘‘ حالانکہ نیب کی منصفانہ خدمات سنہری الفاظ میں لکھنے جانے کے قابل ہیں جس کی خود سپریم کورٹ نے کئی بار تعریف کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جمہوری نظام کا مخالف آنے والی نسلوں کا دشمن ہے‘‘ خاص طور پر وہ جمہوریت جو جمہوریت کم اور موروثیت اور بادشاہت زیادہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ ''آرٹیکل 62-63 کے علاوہ کئی اور بھی راستے روکنا ہوں گے‘‘ جیسا کہ میں نے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا راستہ روکا ہوا ہے جس پر کبھی غرور نہیں کیا اور حکومت کا راستہ رواں کرنے میں لگی ہوئی ہوں اور جس کا کبھی کوئی معاوضہ بھی حاصل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ''مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بھارت سے مذاکرات کرنا ہوں گے‘‘ اور اگر بھارت حسبِ معمول اس پر تیار نہ ہو تو خود سے ہی مذاکرات کرنا چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ''میں نے ہمیشہ پیپلز پارٹی کو ووٹ دیا ہے‘ نواز لیگ کو نہیں‘‘ البتہ نواز لیگ کی جو خدمت کرتی رہتی ہوں وہ ووٹ دینے سے کہیں بڑھ کر ہے اور جس کا وہ خیال بھی رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''آپ کو بنیادی 
حقوق دینا ہوں گے جو آئین دیتا ہے‘‘ لیکن آپ نے یہ اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں‘ اتنے حقوق کو آپ نے کیا کرنا ہے‘ کیا اچار ڈالنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ''سب سے زیادہ بجٹ دفاع میں جاتا ہے‘‘ حالانکہ اس کی کوئی خاص ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ اگر مودی صاحب نوازشریف کے اتنے گہرے دوست ہیں تو ہمیں بھارت سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''184 تھری کو وزیراعظم کو گھر بھیجنے کے لئے استعمال کیا گیا‘‘ حالانکہ ان سے ویسے بھی درخواست کی جا سکتی تھی اور وہ آرام سے گھر چلے جاتے کیونکہ اللہ کا جتنا فضل اُن پر ہو چکا ہے‘ اُنہیں مزید حکومت کرنے کی کیا ضرورت ہے‘ جلنے والے جلا کریں! انہوں نے کہا کہ ''اگر آرمی سیاست میں آئے گی تو ڈسکشن ہو گی‘‘ جبکہ یہاں صرف کرپشن ڈسکس ہوتی ہے حالانکہ عوام نے کرپشن کے خلاف کبھی شکایت نہیں کی اس لئے کرپشن پر بات کرنے سے زیادہ عوام دشمن اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پارلیمنٹ میں آپ قانون کو ڈسکس کرتے ہیں نہ جوڈیشری کو‘‘ اور جوڈیشری پر اپنے زریں خیالات ظاہر کرنے کے لئے صرف میں رہ گئی ہوں اور سمجھتی ہوں کہ اس کے لئے میں اکیلی ہی کافی ہوں‘ اگرچہ مجھے ڈبل ڈیوٹی دینی پڑتی ہے کیونکہ میں فوج کی مزاج پرُسی بھی کرتی رہتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''ابھی تک پاکستانی قوم میں قلم اور آواز کی جان موجود ہے‘‘ جو میری ناچیز آواز سے ظاہر ہے اور اسے غنیمت سمجھنا چاہیے‘ انشاء اللہ بہت جلد میں قلم کے کرتب بھی کر کے دکھا دوں گی۔ انہوں نے کہا ''184 تھری‘‘ لوگوں کو تکلیف دینے کے لئے نہیں‘ تحفظ دینے کے لئے ہے لیکن نواز شریف کی مثال سب کے سامنے ہے جنہیں تحفظ دینے کی بجائے صرف تکلیف دی گئی بلکہ ہمارے جیسے اُن کے نیازمندوں کو زیادہ تکلیف پہنچی ورنہ اتنے طویل بیان کی نوبت ہی نہ آتی۔انہوں نے کہا کہ یہ غلط بات ہے کہ ''آپ آزاد کشمیر کے وزیراعظم کی تذلیل سرعام کریں‘ حالانکہ یہ کام دل میں محسوس کر کے بھی ہو سکتا تھا جبکہ انہیں یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں تھی کہ اب ہمیں سوچنا ہے کہ کس ملک کے ساتھ اتحاد کریں‘ جبکہ یہ بات وہ وزیراعظم سے بھی پوچھ سکتے تھے جو‘ اب سابق وزیراعظم ہو گئے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ''ہر دس سال کے بعد کوئی ایسا سیاستدان پیدا کر دیا جاتا ہے جو اشاروں پر چلے‘‘ اور نوازشریف سے زیادہ اشاروں پر چلنے والا اور کون ہو سکتا ہے لیکن انہیں بھی نکال باہر کر دیا گیا۔ آپ اگلے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
آج کا مطلع
میرے دل میں محبّت بہت ہے
اور‘ محبّت میں طاقت بہت ہے

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں