"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں‘ متن اور دو مشاعرے

یوم آزادی پر تمام تعصبات سے بالاتر
ہو کر آگے بڑھنا ہو گا : نوازشریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''یوم آزادی پر تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر پُرعزم قوم کی حیثیت سے آگے بڑھنا ہو گا‘‘ کیونکہ جہاں تک پُرعزم ہونے کا تعلق ہے تو خاکسار نے پچھلے چار پانچ دنوں سے قوم کو اتنا پُرعزم کر دیا ہے کہ اب یہ عزم سے چھلکنے لگی ہے اور پیشتر اس کے کہ چھلک چھلک کر اس کا سارا عزم ہی باہر نکل کر بہہ جائے‘ اسے آگے بڑھنا ہو گا جبکہ اس کے آگے آگے چلنے کے لیے بندہ حاضر ہے ع
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
انہوں نے کہا کہ ''آزادی بہت بڑی نعمت ہے‘‘ بلکہ نااہل ہو کر تو آدمی اور بھی آزاد ہو جاتا ہے اور اس نعمت کا دونوں ہاتھوں سے استفادہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم قائداعظم کے زریں اقوال پر عمل نہ کر سکے‘‘ اس لیے کم از کم قائداعظم ثانی ہی کے اقوال زریں پر عمل کر لیا جائے جو پچھلے کئی دنوں سے پیش کیے جا رہے ہیں۔ آپ اگلے روز یوم آزادی پر اپنا پیغام دے رہے تھے۔
نوازشریف حکومت میں رہ کر اپوزیشن
کرنا چاہتے ہیں : بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''نوازشریف حکومت میں رہ کر اپوزیشن کرنا چاہتے ہیں‘‘ جس کے بعد خدانخواستہ ہماری تو کوئی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ اس لیے ہمیں کوئی اور کاروبار کرنا پڑے گا اگرچہ والد صاحب کے بیرون ملک پہلے ہی کافی کاروبار ہیں‘ سو‘ ایک آدھ اور سہی۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف جی ٹی روڈ کا ڈرامہ کر کے اپنے جرائم کو چھُپانا چاہتے ہیں‘‘ حالانکہ جرائم کبھی نہیں چھپتے‘ اور اگر ایسا ہوتا تو ہمارے جرائم بھی کہیں چھُپ جاتے کیونکہ یہ مقابلہ تھا اور ہم مقابلے کی دوڑ میں کبھی پیچھے نہیں رہتے۔ انہوں نے کہا کہ ''پتہ نہیں میاں نوازشریف کیا چاہتے ہیں‘‘ ویسے تو ہمارا بھی کچھ پتہ نہیں کہ آخر ہم کیا چاہتے ہیں جبکہ دونوں نے اپنے اپنے اہداف پورے کر لیے ہیں اور اب دونوں کو یہ کھیر ٹھنڈی کر کے کھانی چاہیے۔ پیشتر اس کے یہ ٹیڑھی کھیر بن جائے۔ آپ اگلے روز چنیوٹ میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
٭...بارہ اور تیرہ اگست کو یوم آزادی کے سلسلے میں لاہور میں دو آل پاکستان مشاعروں کا اہتمام کیا گیا جو علی الترتیب قائداعظم لائبریری اور الحمراء میں منعقد ہوئے۔ شعراء کے جو چیدہ چیدہ اشعار یاد رہ گئے‘ پیش خدمت ہیں :
وقت خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے (استاد ریاض مجید)
کبھی وہ آگ سے لگتے ہیں کبھی پانی سے
کب سے میں دیکھ رہا ہوں اُنہیں حیرانی سے
آدمی بن کے مرا آدمیوں میں رہنا
ایک الگ وضع ہے درویشی و سلطانی سے
صرف اللہ کا کیا ذکر‘ بُتوں کو بھی شعور
ہم نے چاہا ہے بڑے جذبہ ایمانی سے (انور شعور)
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے (عباش تابش)
مجھے خبر بھی نہیں‘ تجھ میں خاک ہونے تک
ہزار دشت سے گزری ہے‘ آبجو میری (سعود عثمانی)
برادرم عطاء الحق قاسمی سے ان کی یہ مسلسل غزل بطور خاص حاصل کی گئی تھی‘ اُس کے چیدہ چیدہ اشعار :
میں کبھی سائبان ہوتا تھا
دُھوپ کا رازدان ہوتا تھا
پائوں نیچے زمین ہوتی تھی
ساتھ ہی آسمان ہوتا تھا
شادیاں جب گلی میں ہوتی تھیں
ہر کوئی میزبان ہوتا تھا
ہر کوئی دوسرے کی کشتی تھا
ہر کوئی بادبان ہوتا تھا
اس قدر ساتھ تھیں گھروں کی چھتیں
ایک چھت کا گمان ہوتا تھا
شب کو ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں
ساحلوں کا گمان ہوتا تھا
سب کے مُنہ میں زبان ہوتی تھی
کب کوئی بے زبان ہوتا تھا
...............
شہر لاہور تیری گلیوں میں
اِک سنُہری مکان ہوتا تھا
ایک مہماں وہاں پہ ٹھہرا تھا
جس کا میں میزبان ہوتا تھا
حُسن ہوتا تھا سامنے میرے
اور حُسنِ بیان ہوتا تھا
غم کی گھڑیوں میں بھی اسے مل کر
دل مرا شادمان ہوتا تھا
وہ سمجھتا تھا ان کہی میری
وہ مرا ترجمان ہوتا تھا
ہے کوئی فائدہ بتانے کا؟
میں کبھی نوجوان ہوتا تھا
آج کا مقطع
رونق ذرا چل پھر کے ہی دیکھ آئیں‘ ظفرؔ‘ آئو
ہر روز تو بازارِ تمناّ نہیں لگتا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں