فیصل آباد سے علی زریون کا فون آیا جن کے یہ دو شعر میں اپنے کالم میں نقل کر چکا ہوں :
میں پتھر میں بڑے آرام سے تھا
تری ٹھوکر سے باہر آ گیا ہوں
مجھے للکارنے والے کہاں ہیں
میں اپنے گھر سے باہر آ گیا ہوں
کہنے لگے آپ نے اپنے آج والے کالم میں اپنے مصرعہ ع
ابھی بنیاد ہی جس کی نہ ڈالی گئی ہو اب تک
میں ''گئی‘‘ کو ''گائے‘‘ کے وزن پر باندھ دیا ہے‘ کیا یہ درست ہے؟ میں نے کہا : خوب پکڑا آپ نے مجھے بھی یہ لفظ کھٹکا تھا لیکن چونکہ یہ لفظ پہلے ہی دو اوزان میں باندھا جا چکا ہے مثلاً ع
اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
اور
مِلّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
بلکہ ہمارے ہاں اب بھی ''گیا‘‘ ''گئی‘‘ اور ''گئیں‘‘ کو اسی طرح دو مختلف اوزان میں باندھا جاتا ہے‘ اس لیے میں نے اسے اسی طرح رہنے دیا کہ اگر اس کے وزن میں تھوڑا سا اضافہ یا کمی پہلے ہی کی جا رہی ہے تو ذرا سا یہ اضافہ میں نے بھی کر دیا تو کونسی قیامت آ گئی۔ ''شہزاد بیگ کی شاعری ‘‘ والے کالم پر کافی تبصرے موصول ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے تو خود شہزاد بیگ کا فون آیا‘ عید پر بھرپور مبارکباد دی اور خیریت وغیرہ دریافت کی۔ اس کے بعد موبائل پر ان کا پیغام آیا کہ اپنے جبراً لکھوائے گئے کالم کو پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ آپ سمجھ تو گئے ہوں گے!
سب سے دلچسپ تبصرہ فاطمہ شیرازی کا تھا۔ لکھتی ہیں انسان کو سچ ہی لکھنا چاہیے ورنہ نہیں لکھنا چاہیے۔ بات یہ ہے کہ آدمی شاعر...والی بات خوب تھی کہ آدمی یا تو شاعر ہوتا ہے‘ یا نہیں ہوتا۔ اور اکثر نہیں ہوتا!
ہمارے دوست عابد فاروق کا فون آیا کہ ابھی میں اور ڈاکٹر غافر شہزاد آپ کا کالم ڈسکس کر رہے تھے جس پر میں نے انہیں کہا کہ ڈاکٹر غافر شہزاد نے اخبار میں میری شاعری پر ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا ''آخر ظفر اقبال کا مسئلہ کیا ہے؟‘‘ ''میرے کلیات اب تک‘‘ کی پہلی جلد کا دوسرا ایڈیشن ''سنگ میل‘‘ والے چھاپ رہے ہیں اور میں وہ کالم اس میں شامل کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کا نمبر میرے پاس نہیں تھا‘ ان کی اجازت درکار تھی‘ ان سے پوچھ کر بتا دیں۔ تھوڑی دیر بعد اُن کا فون آ گیا تھا۔
کشور ناہید کی زبانی یہ تشویشناک اطلاع ملی کہ فہمیدہ ریاض‘ ڈاکٹر انور سجاد‘ خالدہ حسین اور ڈاکٹر سحر انصاری شدید علیل ہیں۔ یہ بھی پتا چلا کہ وہ ان سب کے لیے مطلوبہ سہولیات فراہم کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے علم میں یہ بھی ہے کہ سمیع آہوجا اور سلیم کوثر بھی عرصہ دراز سے صاحب فراش ہیں۔ پچھلے دنوں سمیع آہوجا کو فون کر کے ان کی خیریت
دریافت کرنا چاہی تو ان کی صاحبزادی نے کہا کہ میں بات کرواتی ہوں لیکن وہ اچھی طرح بول بھی نہیں پا رہے تھے اور کوئی بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ محمد سلیم الرحمن کو فون کیا تو وہ اس قدر نحیف آواز میں بول رہے تھے کہ مجھ میں یہ پوچھنے کی ہمت ہی نہ ہوئی کہ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ وہ اگر علیل نہیں تو تندرست بھی نہیں تھے۔ ہمارے دوست جسٹس (ر) سعید الرحمن فرخ جو کسی زمانے میں شعر بھی کہا کرتے تھے‘ ہیپاٹائٹس کے نرغے میں ہیں۔ پھر ہمارے ناجی صاحب بھی تو کافی عرصے سے کالم نواز نہیں ہو رہے۔ بول تو ٹھیک رہے تھے لیکن پوری طرح صحت یاب بھی نہیں ہیں۔ سو‘ یہ ہمارے قومی اثاثے ہیں اور انہیں ابھی ہمارے درمیان موجود رہنا چاہیے۔ ان سب کے لیے دعائے صحت یابی کی اپیل ہے۔ جن دوستوں نے عید پر مبارکباد کے لیے یاد کیا‘ یہ خوشیاں اُنہیں بھی مبارک ہوں! اس موقعہ پر سارا خاندان اکٹھا تھا۔ بہت مزہ آیا اور اللہ تعالی کا شکر ادا کیا۔ اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے۔ پہلے فیصل آباد سے کچھ احباب کے یہ اشعار :
یہ شہر چھوڑنا بھی ہے‘ اور اس سے پیشتر
اُس بیوفا کو ایک نظر دیکھنا بھی ہے (اشرف یوسفی)
وقت خُوش خُوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئے
رو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئے (ریاض مجید)
مجھے تخریب بھی نہیں آئی
توڑتا کیا ہوں‘ ٹوٹتا کیا ہے (مقصود وفا)
وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج
مبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں (ثناء اللہ ظہیر)
زمین ٹھیک ہے اور آسماں مناسب ہے
جو تُو یہاں ہے تو پھر یہ جہاں مناسب ہے (عماد اظہر)
اور اب کتابی سلسلہ ''تسطیر‘‘ کے تازہ شمارے میں سے کچھ مزید اشعار :
چھپتے ہیں‘ سائبان ہیں آگے بڑھے ہوئے
گلیاں کے سب مکان ہیں آگے بڑھے ہوئے
گھیرا ہوا ہے چاروں طرف سے زمین کو
حد سے یہ آسمان ہیں آگے بڑھے ہوئے
پسماندگی عوام کے پیچھے پڑی ہوئی
دوچار خاندان ہیں آگے بڑھے ہوئے
سر میں‘ آنکھوں میں آ محبت سے
میرا دیکھا ہوا نظارہ بن (نصیر احمد ناصر)
آج کا مقطع
تھی کسی یاد کی پھوار‘ ظفرؔ
جس نے سارا بھگو دیا ہے مجھے