اگلے روز بطور خانہ پُری شائع ہونے والی میری غزل کے حوالے سے پہلے تو غالباً لندن سے علی ارمان کا فون آیا کہ شاید یہ ٹائپ کرنے والے نے خلاء میں بیٹھ کر لکھی ہے‘ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی۔ اس کے بعد اقتدار جاوید نے بتایا کہ اس کے بعض مصرعوں میں ارکان کی تعداد کچھ زیادہ ہو گئی ہے‘ وہ ٹھیک کہہ رہے تھے‘ یہ ان دو شعروں کی بات ہے جو اس طرح چھپ گئے تھے ؎
گزرتی جاتی یہ میرے پتوں کو چھیڑتی اور چُومتی سی
تری جدائی کی جو ہوا ہے‘ یہی بہت ہے
کہیں تو موجود ہے مری زبردست پیاس کا مداوا
گلاس خالی پڑا ہوا ہے‘ یہی بہت ہے
چنانچہ میں نے پہلے شعر میں سے ''گزرتی جاتی‘‘ کا اور دوسرے میں سے ''زبردست‘‘ کے الفاظ نکال دیئے اور اس طرح جو دو مصرعے ''اوور ویٹ‘‘ ہو گئے تھے‘ انہیں درست کر لیا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ آج لندن ہی سے ضمیر طالب نے بتایا کہ سوشل میڈیا میں آپ کی غزل پر بہت واویلا ہو رہا ہے‘ سب سے زیادہ شور جلیل عالی مچا رہے ہیں (اور شاید خوش بھی ہو رہے ہوں کیونکہ وہ کئی سال سے مجھ سے ناراض بھی ہیں) بلکہ وہ تو کہہ رہے تھے کہ ظفر اقبال نے یہ کوئی نیا لسانی تجربہ کیا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ یہ وضاحت پیش کر دی ہے کہ اس کی وجہ شاید یہ بھی رہی ہو کہ چونکہ مصرعے ان الفاظ کے ہوتے ہوئے بھی وزن میں تھے‘ اس لیے نظرانداز ہو گئے۔ تاہم اِسے صفائی نہ سمجھا جائے‘ بلکہ یہ کہ میں بھی بندہ بشر ہوں‘ کیا میں غلطی نہیں کر سکتا؟
اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یادداشت میں بہت فرق آ گیا ہے۔ لکھتے لکھتے کوئی لفظ یا نام یاد نہیں آتا تو اپنے کسی بیٹے‘ زیادہ تر جنید کو فون کر کے پوچھ لیتا ہوں۔ اگر پھر بھی یہ مسئلہ حل نہ ہو تو اُس لفظ کی جگہ خالی چھوڑ دیا کرتا ہوں کہ دفتر والے خود ہی پُر کر لیں گے‘ اور وہ کر بھی لیتے ہیں۔ پہلے تو میں نے سوچا تھا کہ وضاحت کی ضرورت نہیں ہے‘ خواہ مخواہ اپنا اور دوسروں کا وقت ہی ضائع کروں گا‘ لیکن اب پیشتر اس کے کہ مزید فون آنے لگ جائیں یہ کڑوی گولی نگل ہی لینی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اس سہو کی بنیادی وجہ بزرگی یعنی عمر کا تقاضا ہی ہے جس سے میرے علاوہ کئی دوسروں نے بھی سامنا کرنا ہے۔ ابھی پچھلے ہی دنوں یہ شعر کہا تھا ؎
مت سمجھو وہ چہرہ بھول گیا ہوں
آدھا یاد ہے‘ آدھا بھول گیا ہوں
اس کے علاوہ‘ جیسا کہ غالبؔ نے کہا تھا ؎
بہرا ہوں میں تو چاہیے دُونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکّرر کہے بغیر
سو‘ یہ شعر بھی ملاحظہ ہو ؎
میری بزرگی کا ہی کوئی خیال اگر کر لیا کرو
میرے ساتھ اتنی تو رعایت ہوتی رہنی چاہیے
یعنی اگر آدمی جوانی کا فائدہ اُٹھا سکتا ہے تو بُڑھاپے کا کیوں نہیں۔ اسی ضمن میں یہ اشعار تو شاید آپ کی نظر سے گزر بھی چکے ہوں ؎
میں چلتے چلتے اپنے گھر کا رستا بُھول جاتا ہوں
جب اُس کو یاد کرتا ہوں تو کتنا بُھول جاتا ہوں
ضروری ضابطے‘ فوری فرائض‘ قیمتی قدریں
میں اُس کو دیکھ کر سارا تماشا بھُول جاتا ہوں
اگر کچھ یاد رہتا ہے مجھے تو بھُول جانا ہی
میں کیسا یاد رکھتا ہوں‘ میں کیسا بھُول جاتا ہوں
مقرر کر بھی دوں کوئی جو مجھ کو یاد دلوائے
تو میں اُس آدمی کو ساتھ رکھنا بھُول جاتا ہوں
کہاں تک جائیں گے دونوں‘ کہاں سے واپسی ہو گی
وہ کیا کچھ یاد رکھتا ہے‘ میں کیا کیا بھُول جاتا ہوں
بھُلا دیتا ہوں گر وہ روکتا ہے پاس آنے سے
دوبارہ روکتا ہے‘ میں دوبارہ بھُول جاتا ہوں
ذرا سی بات پر بے حال ہو جاتا ہوں ہنس ہنس کر
جو زخم اُس نے لگا رکھے ہیں‘ گویا بھُول جاتا ہوں
ظفرؔ‘ ضعفِ دماغ اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا
کہ جاتا ہوں وہاں اور واپس آنا بھُول جاتا ہوں
چنانچہ بھُول چُوک تو ویسے بھی معاف ہوتی ہے‘ بشرطیکہ یہ بار بار نہ کی جائے۔ سو‘ میری غلطی ضرور نکالیں لیکن سزا کے طور پر اتنے شعر سُننے کے لیے بھی تیار رہیں ؎
مانو نہ مانو جان جہاں‘ اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
اور‘ اب آخر میں مُنہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے یہ خوبصورت اشعار :
وہ تغافل بھی نہ تھا اور توجہ بھی نہ تھی
اُس نے ٹوکا نہ کبھی حوصلہ افزائی کی
(احمد مشاق)
جتنا اڑا دیا گیا
اِتنا غبار تھا نہیں
(ذوالفقار عادل)
یہ تری جُدائی کی یادگار ہے‘ ورنہ
ایک زخم بھرنے میں دیر کتنی لگتی ہے
(ناصرہ زبیری)
آج کا مطلع
جو بوڑھا ہوں تو کیوںدل میں محبت زور کرتی ہے
میں جتنا چپ کراتا ہوں یہ اتنا شور کرتی ہے