"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن‘ ٹوٹا‘ علی زریون اور عمیر نجمی

نواز شریف‘ عوام کے پاس مسائل کا
کوئی حل نہیں ہے: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''نواز شریف اور عمران کے پاس عوام کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے‘‘ اگرچہ ہمارے پاس بھی کوئی حل نہیں ہے لیکن ہمارے پاس زرداری صاحب تو ہیں جن کا دیدار عوام کے لیے کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''کرپٹ اور نااہل حکمرانوں نے ہر قدم پر قوم کو دھوکہ دیا‘‘ کرپٹ ہونا اور بات ہے لیکن پیپلز پارٹی کو نااہل ہرگز نہیں کہا جا سکتا جس کے حکمرانوں نے اپنے حالیہ پانچ سالہ دورِ اقتدار میں اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا‘ جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ ''ان حکمرانوں نے عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے اپنی تجوریاں بھریں‘‘ جبکہ ہمارے پاس تو کوئی تجوری تھی ہی نہیں اور جو چار آنے کماتے آنٹی ایان علی کے ذریعے خیرات میں تقسیم کر دیا کرتے تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ ''نون لیگ کی حکومت چار سال سے کیا کر رہی ہے‘‘ اگرچہ ہم نے بھی یہی کچھ کرنا تھا‘ اس لیے کہنے میں کیا حرج ہے۔ آپ اگلے روز ساہیوال میں ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
موجیں ہی موجیں
آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ آئندہ نہ صرف وفاق‘ پنجاب اور سندھ میں ہماری حکومت ہو گی بلکہ خیبر پختونخوا میں بھی۔ گویا حالیہ ضمنی انتخاب میں ان کے امیدوار کی جو ضمانت ضبط ہو گئی ہے تو یہ محض ایک اتفاق تھا۔ ہم اس بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے‘ ماسوائے اس کے کہ میراثی کے بیٹے نے باپ سے پوچھا:
''ابا اگر گائوں کا نمبردار مر جائے تو نمبردار کون ہو گا؟‘‘
''اس کا بیٹا نمبردار ہو گا‘‘ باپ نے جواب دیا۔
''اور اگر وہ بھی فوت ہو جائے تو؟‘‘ بیٹے نے پھر سوال کیا۔
اگر اس کا دوسرا بیٹا ہو تو وہ یا اس کا کوئی بھائی‘‘ باپ نے جواب دیا۔
اور اگر وہ بھی مر جائے تو؟ بیٹے نے پھر سوال کیا۔
بیٹا‘ اگر سارا گائوں مر جائے تو پھر بھی تُو نمبردار نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی اس لیے عرض کیا کہ زرداری صاحب سمجھتے ہیں کہ نواز شریف سزا یاب ہو جائیں گے اور عمران نااہل ہو جائیں گے‘ اور پھر موجیں ہی موجیں ہیں!
کوئی بات نہیں
فیصل آباد سے ممتاز اور ہمارے پسندیدہ شاعر علی زریون نے میسیج کیا ہے ''آپ کے کالم سے ان تمام لوگوں کو کان ہو جائیں گے جن کے لیے فلیپ نگاری ایک مروّت کا کام ہے۔ لوگوں کو پتا ہونا چاہیے کہ کسی کے شعر پر رائے دیتا ایک معنی رکھتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر آپ کا کلام ویسا ہی دیانتدارانہ محسوس ہوا جس خالص اور کڑی تنقید کی ہم آپ سے توقع رکھتے ہیں۔ شہزاد بیگ کا شکریہ کہ اس نے آپ کو کتاب بھیجی اور مجھے بھی کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ سلامت رہیے سر! 
آج آپ کے کالم میں امجد بابر صاحب کی نظم پڑھی۔ سخت‘ اذیت اٹھائی۔ یہ نظم جس نظم سے نکالی گئی ہے وہ پیش کرتا ہوں:
''ایکتا‘‘
بصرہ میں گھنگھرو چھنکے
دلی میں سرمد ناچا
رومی نے آتش پہنی
بلھے نے تھیّا باندھا
خسرو نے چُنری رنگی
شاہ لطیف نے پریم جیا
سیفو نے اک آہ بھری
سارہ نے نظم جنی
اور خلیل نے گیت لکھا
دیوانوں مستانوں کی تاریخ
جہاں دیکھو گے
نفرت‘ آگ‘ تعصب سے خالی پائو گے
اک عالم افروز کتھا ہے
جو آپس میں جڑی ہوئی ہے
یہ اقرار بھری خوشبو ہے
تو ہی تو ہے
اور‘ عرض کرتا چلوں کہ یہ نظم دو برس پہلے فیس بک پر شیئر کر چکا ہوں‘‘ علی زریون! آپ سجاد بابر کے سینئر ہیں اس لیے اگر اس نے آپ سے یہ استفادہ کر ہی لیا ہے تو اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے۔ البتہ اگر وہ اس کے ساتھ آپ کی نظم کا بھی حوالہ دے دیتا تو آپ دونوں کی عزت میں اضافہ ہوتا۔ تاہم اس سے یہ بھی ہوا ہے کہ قارئین کو ایک بیحد خوبصورت نظم پڑھنے کو مل گئی۔ شکریہ علی زریون۔
اور‘ اب آخر میں عمیر نجمی کے دو شعر:
نہیں ہے وجہ ضروری کہ جب ہو تب مر جائیں
اُداس لوگ ہیں‘ ممکن ہے بے سبب مر جائیں
یہ مرنے والوں کو رونے کا سلسلہ نہ رہے
کچھ ایسا ہو کہ بیک وقت سب کے سب مر جائیں
آج کا مقطع
آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں‘ ظفرؔ
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں