آئندہ انتخابات میں نون لیگ کو اڑا کر رکھ دیں گے : عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ''آئندہ انتخابات میں نون لیگ کو اڑا کر رکھ دیں گے‘‘ بشرطیکہ مجھے ہی اڑا کر نہ رکھ دیا کیونکہ عدلیہ کے تیور کچھ اچھے نظر نہیں آ رہے حالانکہ اس چیز کا خیال رکھا جانا چاہیے کہ نوازشریف کا بسترہ گول ہونے کے بعد ملک کو کس نے چلانا ہے‘ اگرچہ اس سلسلے میں خاصا اناڑی واقع ہوا ہوں‘ تاہم اگر ملک کی باگ ڈور اناڑیوں کے پاس رہتی تو ملک کا یہ حال نہ ہوتا بلکہ شاید بات اس سے بھی آگے بڑھ جاتی۔ انہوں نے کہا کہ ''حکمرانوں نے ہر جگہ وفاداروں کو بیٹھا دیا ہے‘‘ حالانکہ بے وفا لوگوں کو بھی موقع دینا چاہیے کیونکہ وفاداروں نے بھی تو آخر ایک دن بے وفا ہی ہو جانا ہے اور یہ محترمہ گلالئی اس کی زندہ مثال ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں‘‘ اور ہو سکتا ہے کہ وہ عدالت سے بھی پہلے مجھے فارغ کر دے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دے رہے تھے۔
اسحاق ڈار پر لگنے والے الزامات محض مذاق ہیں : رانا ثناء اللہ
صوبائی وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''اسحاق ڈار پر لگنے والے الزامات مذاق ہیں‘‘ جنہیں سن کر وہ خود ہنستے ہوئے بے حال ہو گئے تھے۔ حتیٰ کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جس پر وہ کہنے لگے کہ یہ خوشی کے آنسو ہیں کیونکہ میں اور میرا قائد ایک ہی جگہ کے لیے سامان سفر باندھے ہوئے ہیں اور ع
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
بلکہ زیادہ امکان تو یہ ہے کہ وہاں دیوانوں کی بھیڑ ہی لگ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''جے آئی ٹی والے ہیرے کم اور شیطان زیادہ لگتے ہیں‘‘ جبکہ ہمارے قائد نے انہیں ہیرے کہا ہے کیونکہ اُن کے آج کل حواس ذرا درست نہیں ہیں‘ بھوک بھی کم ہو گئی اور کھانا صرف تین وقت ہی زہر مار کرتے ہیں جس پر ہم سب بہت پریشان ہیں‘ حتیٰ کہ شاہی باورچی بھی اور‘ اگر ماڈل ٹائون والی رپورٹ منظرعام پر آ جاتی ہے تو خدشہ ہے کہ میرا اور وزیراعلیٰ کا کھانا پینا بھی محدود ہو کر رہ جائے گا حالانکہ اللہ نے انسان کو صرف کھانے کے لیے دُنیا میں بھیجا ہے ورنہ اُس کی اطاعت اور حمد و ثناء کے لیے فرشتے کچھ کم نہ تھے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''مُلک کو تماشا بنایا جا رہا ہے‘‘ حالانکہ ہم یہ کام زیادہ تندہی سے کر رہے تھے۔
عمران اپوزیشن لیڈر بن بھی جائیں تو
لڑنے کے سوا کچھ نہیں کرینگے : کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''عمران خان اپوزیشن لیڈر بن بھی گئے تو لڑنے کے سوا کچھ نہیں کریں گے‘‘ کیونکہ اپوزیشن تو ہوتی ہی فرینڈلی ہے جس کا کام مل جل کر ایک دوسرے کو بچانا ہوتا ہے تاکہ دونوں کا کام چلتا رہے کیونکہ اگر اس طریقے سے اپوزیشن کو نہ چلایا جاتا تو دونوں کی لیڈر شپ آج جیل میں ہوتی‘ اگرچہ دونوں کے آثار اب بھی یہی ہیں اور ایک کے بعد دوسرے کی باری آنی ہی آنی ہے۔ ویسے بھی لڑائی جھگڑا جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اور سارا رزق حلال واپس کرنا پڑ جاتا ہے کیونکہ یہ کام بھی اب ساتھ ساتھ ہوتا رہے گا حالانکہ روپے پیسے کی دنیا میں کیا حیثیت ہے‘ سب کو آخرت کی فکر کرنی چاہیے‘ شاعر نے کیا خوب کہا ہے ع
سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ
آپ اگلے روز کراچی کے ایک ٹی وی چینل میں گفتگو کر رہے تھے۔
اسحاق ڈار مستعفی ہونے کے پابند نہیں : سلمان اکرم راجہ
سینئر قانونی ماہر سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ ''اسحاق ڈار مستعفی ہونے کے پابند نہیں ہیں‘‘ کیونکہ موجودہ حکومت میں ماشاء اللہ کوئی بھی کسی چیز کا پابند نہیں ہے جس کی درخشندہ مثال سابق وزیراعظم کی شکل میں ہم سب کے سامنے ہے کیونکہ ووٹ کا تقدس بھی یہی ہے کہ اقتدار حاصل کر کے اسے اس طرح استعمال کیا جائے کہ خود اقتدار بھی باں باں کرنے لگ جائے‘عوام کی تو بات ہی دوسری ہے‘ نیز یہ کہ عوام ووٹ دے کر حکومت میں اس لیے نہیں بھیجتے کہ جا کر استعفے دے دیں بلکہ اس لیے کہ جو کچھ اُن کے جی میں آئے کرتے رہیں اور کوئی اُنہیں پوچھنے والا نہ ہو‘ اور یہ کام بھی مُدت پوری ہونے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے‘ اس سے پہلے نہیں کیونکہ اس سے پہلے ان سے سوال جواب کرنے سے اُن کے اصل کام میں دخل اندازی ہوتی ہے جو وہ دونوں ہاتھوں سے کر رہے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے دو دو ہاتھ دیئے بھی اسی لیے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں شریک تھے۔
ریکارڈ کی درستی
ہمارے اکثر قانونی ماہر دوست حکمران طبقے کو‘ جو مقدمات کے شکنجے میں آیا ہوا ہے‘ یہ کہہ کر تسلیاں دینے میں مصروف ہیں کہ چونکہ مقدمات کی سماعت میں کئی قانونی غلطیاں کی جا رہی ہیں مثلاً فرد جُرم سات یوم سے پہلے لگاکر نیب قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے جس سے ملزمان کو فائدہ پہنچے گا اور وہ بالآخر باعزت بری ہو جائیں گے حالانکہ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ کوئی عام مقدمہ نہیں ہے بلکہ اسے ایک مقررہ مدت میں ختم بھی کیا جانا ہے‘ اس لیے فروعی قسم کی پابندیوں سے ماورا ہو کر اسے معینہ مدت کے ختم ہونے سے پہلے اسے اپنے منطقی انجام تک پہنچانا ہے سو‘ اس سلسلے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی دی ہوئی ہر ہدایت بجائے خود قانون کی حیثیت رکھتی ہے اور تمام موشگافیوں سے مبرّا ہو جاتی ہے کہ یہ سب کچھ سوچ سمجھ کر ہی کیا جاتا ہے۔ اور‘ اب کراچی سے سلیم کوثر کے عنایت کردہ یہ دو شعر :
مجھ سے کہاں سنبھلتے ہیں دل کے معاملات
جس کا یہ گھر ہے فکر اُسے ہونی چاہیے
مُجھ کو اس بار کم دکھائی دیئے
خواب آتے ہوئے سُنائی دیئے
آج کا مقطع
بظاہر تو‘ ظفرؔ یہ گھاس میری کُچھ نہیں لگتی
مگر یہ‘ اور‘ سارے پیڑ رشتے دار ہیں میرے