"ZIC" (space) message & send to 7575

دلچسپ اور افسوسناک

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی آج نیب عدالت میں پیشی کے موقع پر نہ صرف صحافیوں کو کمرۂ عدالت میں جانے سے روک دیا گیا بلکہ وفاقی وزراء کو بھی ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی جن میں خود وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال بھی شامل تھے جنہوں نے دھمکی بھی دی کہ ریاست کے اندر ریاست قائم نہیں ہو سکتی۔ اس کی انکوائری اور ایکشن لیا جائے گا اور مجھے مطمئن نہ کیا گیا تو میں مستعفی ہو جائوں گا۔ علاوہ ازیں جب رینجرز کے ایک اہلکار سے کہا گیا کہ وہ موقع پر موجود اپنے انچارج کو بلائیں جو بقول ان کے نہ آئے اور روپوش ہو گئے۔ انہوں نے پنجاب ہائوس واپس جا کر سیکرٹری داخلہ سے کہا کہ وہ اس کی وضاحت اور رپورٹ طلب کریں۔ بعد کی رپورٹ کے مطابق چونکہ طے شدہ فہرست میں وزیر داخلہ کا نام نہیں تھا اس لیے انہیں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ یہ بھی کہا گیا کہ بعد میں دانیال عزیز اور مائزہ حمید جو رکن قومی اسمبلی ہیں‘ انہیں جانے دیا گیا اور باقی وزراء سے بھی کہا گیا کہ وہ اگر چاہیں تو اندر آ جائیں لیکن کوئی نہ آیا۔ حکومتی حلقے اس رپورٹ اور وضاحت سے مطمئن نہیں لگتے۔
تاہم چونکہ بقایا ملزمان حسین نواز‘ حسن نواز مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر آج غیر حاضر تھے اس لیے نواز شریف پر فرد جرم عائد نہ ہو سکی جس پر مقدمہ اگلے منگل تک کیلئے ملتوی کر دیا گیا جبکہ بقایا ملزمان کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کر دئیے گئے جو بقول ترجمان کلثوم نواز کی عیادت میں مصروف ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکے۔ اگر وہ تب بھی نہ آئے تو انہیں اشتہاری قرار دیا جائے گا جبکہ ان کے اثاثے منجمد اور جائیداد قرق کرنے کے احکامات بھی صادر ہو سکتے ہیں۔ اس ساری صورتحال کا حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے‘ اس کا سب کو انتظار ہے جبکہ اس بات کی پوری طرح سے وضاحت نہیں ہو سکی کہ رینجرز نے کس کے حکم پر عدالت کا بیرونی انتظام اپنے قبضے میں لے رکھا تھا۔ تاہم صورتحال تشویشناک اور چشم کشا بھی ہے اور ایک خراب تر صورتحال کا بھی پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ یہ بات بطور خاص نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ رینجرز چونکہ وزارت داخلہ کے براہ راست ماتحت ہے اور متعلقہ وزیر کو نہ تو اندر داخل ہونے دیا گیا اور نہ ہی بلانے کے باوجود رینجرز کا کوئی ذمہ دار افسر ظاہر ہوا۔
ریکارڈکی درستی
عشرۂ محرم کے موقع پر ٹیلی ویژن پر اس حوالے سے جو اشعار پڑھے اور لکھے جاتے رہے ان میں سے کئی درست طور پر پیش نہیں کیے گئے۔ مثلاً جوش ملیح آبادی کی ایک رباعی جس کا دوسرا شعر یہ ہے:
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
جبکہ پہلے شعر کا دوسرا مصرعہ اس طرح سے لکھا اور پڑھاجاتا رہا:
چراغِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسینؓ
یہاں لفظ ''چراغ‘‘ غلط طور پر لگایا گیا کیونکہ اصل مصرعہ اس طرح سے ہے:
چرخِ نوعِ بشر کے تارے ہیں حسینؓ
کیونکہ لفظ ''چراغ‘‘ لگانے سے ایک تو مصرعہ بے وزن ہو جاتا ہے اور دوسرے بے معنی بھی یعنی چراغ کے تارے کیا ہوا؟
اس کے علاوہ یہ مشہور زمانہ رباعی اس طرح لکھی اور پڑھی گئی ہے:
شاہ است حسینؓ بادشاہ است حسینؓ
دیں است حسینؓ دیں پناہ است حسینؓ
سرداد نداد دست در دستِ یزید
حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ
فارسی مصرعے کے مطابق جہاں ''ہ‘‘ کے بعد ''الف‘‘ آئے وہاں ہ اور الف کو ملا کر پڑھا جاتا ہے یعنی ''شاہ است‘‘ کی جگہ شاہست پڑھا جائے گا اور اسی طرح بادشاہست۔ علاوہ ازیں ساہ است حسین کے بعد وائو آتا ہے جو 'اور‘ کے معنوں میں ہے۔ علاوہ ازیں اگر نون غنہ کے بعد الف آئے تو وہ ن اعلان کے ساتھ ادا کیا جائے گا یعنی دین است پڑھا جائے گا۔ علاوہ ازیں حسین کے بعد پھر وائو آئے گا۔ اس کے بعد ''سرداد‘‘ کے بعد بھی وائو آئے گا اور لا الہ است کی بجائے ''لا الا ہست‘‘ پڑھا جائے گا۔ یہ اس لیے عرض کیا ہے کہ ان اشعار کے تقدس کا تقاضاہے کہ انہیں صحیح ادا کیاجائے۔ (وما علینا الاالبلاغ)
اس کے علاوہ ایک غلطی خاکسار سے بھی ہو گئی جو یہ شعر ہے:
ترک تعلقات کا دن بھی عجیب تھا
مر کر رہا ہوئے کہ رہا ہو کے مر گئے
جو ہمارے دوست محمد اظہار الحق کا تھا جو کل والے کالم میں رضوان ایچ قاضی کے نام سے درج ہو گیا۔
دونوں حضرات سے معذرت
اور اب ضمیر طالبؔ کے یہ دو شعر:
تمام رستے جہاں جا کے ختم ہوتے ہیں
اسی مقام سے اک راستہ نکلتا ہے
ہر ایک چیز کوئی اور چیز ہے یہاں پر
ہر ایک شخص کوئی دوسرا نکلتا ہے
اگلے روز ہمارے بے مثال شاعر احمد مشتاق کا امریکہ سے فون آیا۔ واپسی کا ابھی کچھ نہیں بتایا کیونکہ بچے بھی وہاں سیٹل ہو چکے ہیں تو واپس اگر آئیں گے تو صرف ہاتھ لگانے کیلئے ہی۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں کے ہسپتالوں میں فائیو سٹار ہوٹلوں جیسی سہولیات حاصل ہیں۔ یہ سن کر یہاں کے ہمارے سرکاری ہسپتال بہت یاد آئے!
آج کا مقطع
پائوں پھیلاتا ہوں چادر دیکھ کر میں بھی‘ ظفرؔ
کچھ مجھے اُس نے بھی ہے اوقات میں رکھا ہوا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں