ہمارے دوست اور بزرگ شاعر جناب ستیہ پال آنند غزل پر سالہا سال تک مسلسل تبرّا بھیجتے رہنے کے بعد اب اس صنفِ مظلوم پر یوں مہربان ہوئے ہیں کہ غزلوں پر غزلیں تخلیق کرتے چلے جا رہے ہیں‘ تاہم غزل سے بدلہ لینے کی غرض سے وہ اسے بے وزنی کی مار بھی دے رہے ہیں جس کا نوٹس ہم پہلے بھی لے چکے ہیں‘ تاہم صاحب موصوف اب بھی پتا نہیں چلنے دیتے کہ وہ غزل سے محبت کر رہے ہیں یا نفرت یعنی بقول غالبؔ ؎
ہے بسکہ ہر اک اُن کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور
لاہور کے ایک رسالے ''تخلیق‘‘ میں نے انہوں نے جو غزل ارشاد فرمائی ہے اور جو بقول اُن کے طرحی غزل ہے (مصرع طرح : ہماری زندگی کیا اور ہم کیا) اس کا پہلا شر ہے ؎
ہے یہ بے فیض انسانی جسم کیا
ہماری زندگی کیا اور ہم کیا
اس میں آپ نے پہلے ہی مصرعے میں جسم کو بدن کے وزن پر باندھ کر اسے وزن سے پاک کر دیا ہے‘ شاید اس خیال سے کہ اگر جسم اور بدن کا مطلب ایک ہے تو ان کا وزن بھی ایک ہی ہونا چاہیے۔ ہو سکتا ہے یہ کام انہوں نے نظر بٹو کے طور پر کیا ہو تاکہ ان کا کلام نظر بد سے محفوظ رہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ایک ہی شعر سے اُن کی تسلی نہیں ہوئی چنانچہ ساتویں شعر ؎
کہ وصل القدر ہے ایطائے جلی
علیحدہ کیا‘ دگر کیا‘ اور ہم کیا
میں لفظ ''جلی‘‘ تشدید کے ساتھ باندھا ہے‘ شاید زور پیدا کرنے کے لیے۔ تاہم ایسا لگتا ہے‘ کہ نظر بد کا خدشہ ہنوز باقی ہے چنانچہ اس سے اگلے شعر میں ؎
فقیری میں بھی ہے صبر ایوبی
لُٹا گھر بار میرا تو الم کیا
ایوبی کی تشدید اڑا کر حساب برابر کر دیا ہے اور یہ قاری کی صوابدید پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ ''جلی‘‘ سے تشدید اُتار کر ''ایوبی‘‘ پر لگا لے اور اس طرح حساب پورا کر لے۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ نظر بد کا خدشہ ابھی باقی ہے‘ چنانچہ اس کے بعد ایک شعر آتا ہے۔
پیاسی کھیتیاں‘ بنجر زمینیں
مرے سائے میں آئے خُشک و نم کیا
یہاں ''پیاسی‘‘ کو اُداسی کے وزن پر باندھ کر اس خدشے کو مزید دور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ع
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
تاہم‘ اس ضمن میں ان کے ایک کلاس فیلو اور بھی ہیں اور وہ ہیں ہمارے کرم فرما مرزا احمد نور طائر۔ آپ کم و بیش روزانہ ہی فون پر سیاسی صورتحال پر اپنی کبیدگی خاطر کا اظہار اور اس پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ اسی شمارہ میں ان کی بھی ایک غزل شائع ہوئی ہے جس میں اُنہوں نے بھی چار شعروں میں یہ کمال دکھایا ہے۔ ان کی غزل کا دوسرا شعر ہے ؎
ایسا لگتا ہے کہ آج وہ موجود ہیں محفل میں
وہی گل‘ وہی خوشبو‘ وہی تازہ ہوا آج کی شام
آپ اس لحاظ سے جناب ستیہ پال آنند سے بھی چار ہاتھ آگے نکل گئے ہیں کہ ان کے دونوں مصرعے خارج از وزن ہیں۔ اسی غزل کا تیسرا شعر بھی بے وزن ہے‘ کم از کم پہلے مصرع کی حد تک یعنی ؎
سب پریزاد ہی بستے ہوں جس بستی میں
ایسی بستی کوئی دنیا میں بسا آج کی شام
اس سے اگلا شعر ماشاء اللہ دونوں مصرعوں میں وزن سے محروم ہے ؎
میں نے صدیوں تُجھے چاہا‘ مری جان ہے تُو
کُچھ تو رہے میری چاہت کا صلہ آج کی شام
حتیٰ کہ چھٹا شعر یعنی مقطع بھی اُس خوبی سے خالی نہیں ہے‘ کم از کم مصرع اوّل کی حد تک ؎
آج کی شام تری آمد کے ہیں چرچے طائر
رونق شہر نگاراں ہے سوا آج کی شام
دونوں حضرات کو مبارک ہو کہ مقابلے میں برابر رہے ہیں!
اس رسالے کے ایڈیٹر جناب سونان عمر جاوید غالباً عروض و اوزان کی سر دردی سے بے نیاز ہیں ورنہ یہ غزلیں اس حالت میں شامل اشاعت ہی نہ کی جاتیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک جناب انور سدید ان باتوں کا خیال رکھا کرتے تھے لیکن ان کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ بھی منقطع ہو گیا۔ چنانچہ موصوف کو کوئی انتظام کرنا چاہیے کہ پرچے میں بے وزن شاعری اشاعت پذیر نہ ہو سکے کیونکہ اس سے رسالے کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے ع
اور درویش کی صدا کیا ہے
مشکوک معاملہ اور شاندار کامیابی
ایک لڑکے نے گھر آ کر اپنی ماں سے کہا کہ سکول میں دوڑ کا مقابلہ ہوا تھا‘ جس میں میں اوّل آیا ہوں۔ ماں نے پوچھا :
''کتنے لڑکے دوڑے تھے؟‘‘ تو لڑکے نے جواب دیا‘
''میں اکیلا ہی دوڑا تھا!‘‘
سو‘ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ ایک سنسنی خیز مقابلے کے بعد ایک بار پھر نواز لیگ کے صدر منتخب ہو گئے ہیں : ع
ایں کاراز تو آید و مرداں چنیں کُنند
آج کا مطلع
آگے کہیں نکل کے ٹھہرنا تو ہے مجھے
اور تیرے سامنے سے گزرنا تو ہے مجھے