رینجرز والے معاملے میں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انہیں عدالت کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے حکم کس نے دیا تھا نہ ہی حکومت تاحال اس کا کھوج لگا سکی ہے اور نہ ہی تاحال وفاقی وزیر داخلہ اپنی دھمکی کے مطابق مستعفی ہوئے ہیں۔ تاہم دارالحکومت میں آرٹیکل 245 پہلے سے ہی نافذ ہے اور فوج یا اس کے کسی ذیلی ادارے کو ملک کے اندر کہیں بھی اپنی موجودگی کا جواز ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت فوج کو جہاں کہیں دہشت گردی کا خدشہ ہوں وہ ازخود وہاں پہنچ کر صورتحال کو کنٹرول کر سکتی ہے چنانچہ ممکن ہے کہ یہ کسی اندرونی تھریٹ کے پیش نظر کیا گیا ہو جبکہ یہ اعلان پہلے ہی پریس میں آ چکا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف ''تھریٹ‘‘ میں ہیں۔ مزید برآں یہ کارگزاری ان اطلاعات کے بعد مزید مشکوک ٹھہرتی ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو اعتماد میں لیے بغیر اپنی مرضی کے فیصلے کرنے لگے ہیں اور یہ جو رینجرز کی وہاں آمد کا اتا پتا ہی نہیں چل رہا تو اس میں کوئی راز ضرور ہے۔ ایک بار ایک صاحب
یہاں سے کسی کام کے لیے پیرس گئے جہاں انہیں کوئی مہینہ بھر قیام بھی کرنا تھا۔ اسی دوران اُن کی ایک فرانسیسی لڑکی کے ساتھ دوستی ہو گئی جو تھوڑی بہت انگریزی بھی جانتی تھی۔ ان صاحب نے ملاقات کے لیے اس لڑکی کو ایک ریستوران میں بلا رکھا تھا۔ وہ ریستوران کی طرف جا رہے تھے کہ راستے میں انہیں سڑک پر پڑا ایک کاغذ کا ٹکڑا ملا جس پر فرانسیسی زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ انہوں نے وہ کاغذ اپنی جیب میں رکھ لیا اور ریستوران پہنچ کر اس لڑکی کو دکھایا کہ اُسے پڑھ کر بتائے کہ اس پر کیا لکھا ہے۔ لڑکی نے کاغذ کی تحریر پڑھی اور موصوف کو ایک زوردار تھپڑ لگا کر ٹپ ٹپ کرتی ریستوران سے باہر نکل گئی۔ وہ صاحب پریشان ہو گئے کہ یہ کیا معاملہ ہے چنانچہ انہوں نے وہ کاغذ ہوٹل کے منیجر کو دکھا کر پوچھا کہ اس پر کیا لکھا ہے‘ منیجر نے کاغذ پڑھتے ہی پہلے تو خود اس کی دھلائی کی اور اس کے بعد اپنے بیروں سے بھی اس کی مرمت کروائی۔ وہ صاحب مزید پریشان ہو کر ریستوران سے باہر نکلے اور فٹ پاتھ پر جاتے ایک شخص کو وہ کاغذ دکھایا کہ ذرا پڑھو کہ اس پر کیا لکھا ہے چنانچہ اس شخص نے دل کھول کر اس کو پیٹا۔ اس دوران اُسے یاد آیا کہ اس کا ایک دوست شہر میں رہتا
ہے جو فرانسیسی بھی جانتا ہے۔ اس نے اُسے فون کیا اور سارا احوال سنایا اور کہا کہ براہ کرم پہلی فرصت میں آ کر یہ مسئلہ حل کرے۔ دوست نے کہا کہ میں بحری جہاز کے ذریعے کہیں جا رہا ہوں اور بندرگاہ پر پہنچنے والا ہوں۔ آپ وہیں آ جائیں جہاں میں کاغذ کی تحریر دیکھ لوں گا۔ وہ صاحب بھاگے بھاگے بندرگاہ پہنچے لیکن ان کا دوست جہاز میں سوار ہو کر جہاز کے عرشے پر اُن کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے انہیں دیکھتے ہی کہا کہ اب آپ اوپر تو آ نہیں سکتے۔ کاغذ کی گولی بنا کر عرشے پر پھینک دیں۔ ان صاحب نے کاغذ کی گولی بنا کر اس کی طرف پھینکی لیکن وہ اس تک پہنچنے کی بجائے سمندر میں گر گئی۔ سو‘ آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ کاغذ کے اُس ٹکڑے پر کیا لکھا ہوا تھا۔ اسی طرح رینجرز کی عدالت کے باہر آ کر اس کا کنٹرول سنبھالنے کی ذمہ داری کس کی تھی‘ ابھی تک صیغہ راز میں ہے اور زیادہ امکان اسی کا ہے کہ صیغہ راز ہی میں رہے۔
تاہم‘ اس حوالے سے امکان یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے حکومت‘ اور خاص طور پر سابق وزیراعظم کے لیے ایک پیغام تھا۔ اسی سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں صورتحال کیا کیا رُخ اختیار کر سکتی ہے جبکہ سابق وزیراعظم کی سپریم کورٹ پر یلغار بدستور جاری ہے جس کا ایک مظاہرہ انہوں نے تیسری بار نواز لیگ کا صدر منتخب ہونے کے بعد اپنی زوردار تقریر میں بھی کیا ہے۔ تاہم موصوف کو بہت جلد یہ بھی معلوم ہونے والا ہے کہ اُن کے معترضین میں سے کتنے اب تک اسٹیبلشمنٹ کے سایۂ عاطفت میں آ چکے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جنہوں نے ان کے خلاف سلطانی گواہ کے طور پرپیش ہونا ہے اور آپ یہ کہتے نظر آئیں گے کہ بروٹس‘ تم بھی؟
ادھر ان کے برادر خورد نے موجودہ صورتحال کا ذمہ وزیراعظم کے بعض ساتھیوں کو قرار دیا ہے جن کے مشوروں سے وہ اس نوبت کو پہنچے حالانکہ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نے کبھی کسی سے مشورہ مانگا اور نہ ہی کوئی مشورہ قبول کیا کیونکہ وہ اپنے آپ کو مشوروں وغیرہ سے ماورا سمجھتے ہیں اور اُن کا ٹریک ریکارڈ بھی یہی ہے‘ البتہ دُختر اوّل ان کی موجودگی اور زیادہ تر غیر موجودگی میں جو احکامات صادر کرتی رہی ہیں اصل میں تو یہ ان کا شاخسانہ ہے لیکن میاں شہبازشریف ان کا نام نہیں لیں گے۔ تاہم موصوف کے مُنہ پر یہ بات بھی کہہ دینے سے کہ یہ ان کے مشیروں کے غلط مشوروں کا نتیجہ ہے‘ اُن کی جرأت رندانہ کا کچھ کچھ اندازہ ہو جاتا ہے کہ گھریلو صورتحال قدرے تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔
تاہم‘ میاں صاحب کے ایک بار پھر نواز لیگ کا صدر منتخب ہونے پر ہمارا مزید تبصرہ یہ ہے کہ ایک لڑکے نے گھر آ کر اپنی ماں سے کہا کہ میں دوڑ میں اوّل آیا ہوں۔
دوم اور سوم کون کون آئے؟ ماں نے پوچھا‘ جس پر لڑکے نے جواب دیا‘ دوم جیولر ہے جو دروازے پر پہنچا ہی چاہتا ہے اور سوم پولیس والا جو گلی کی نُکڑ تک پہنچ چکا ہے!‘‘
اور‘ اب آخر میں انٹرنیٹ سے موصول ہونے والا یہ شعر ؎
رہزنوں سے رہبروں کا رابطہ محفوظ ہے
لُٹ گیا میرا وطن اور فیصلہ محفوظ ہے
آج کا مقطع
ہم خود ہی رُکاوٹ ہیں‘ ظفرؔ اِس کے علاوہ
دیوار بھی اُونچی تھی وہاں‘ در بھی نہیں تھا