جس حکومت نے کام نہیں کیا‘ عوام نے
اسے گھر بھیج دیا: شاہد خاقان عباسی
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''جس حکومت نے کام نہیں کیا‘ عوام نے اسے گھر بھیج دیا‘‘ جبکہ ہم اپنے کاموں کی وجہ سے مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں حالانکہ یہ کچھ زیادہ خراب بھی نہیں تھے کیونکہ رزق حلال کمانا کوئی عیب کی بات نہیں ہے اور زیادہ سے زیادہ رزق حلال کمانا بھی عیب کی بات نہیں‘ البتہ اسے دوسرے ملکوں میں روانہ کرنے میں ضرور غلطی ہو گئی جس سے درگزر کرنا چاہئے تھا کیونکہ کوئی ملکی بینک اس کا متحمل ہی نہ ہو سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''نظام چلتا رہا تو خرابیاں خود دور ہو جائیں گی‘‘ اس لیے اسے کم از کم سو سال تو چلنے دیا جائے کیونکہ اتفاق سے خرابیاں کچھ زیادہ ہی پیدا ہو گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''آئندہ بھی لوگ ہی فیصلہ کریں گے کہ حکمرانی کون کرے گا‘‘ اور حکمران بن کر وہی کچھ کریں گے جو حکمران اب تک کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''سب مسائل جمہوری عمل میں ہی حل ہو سکتے ہیں‘‘ لیکن حل ہوں گے نہیں کیونکہ یہ جمہوریت ذرا اور قسم کی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں خطاب کر رہے تھے۔
نیب کا دائرہ کار فوج اور عدلیہ تک بڑھانے
کی ضرورت نہیں: شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نیب کا دائرہ کار فوج اور عدلیہ تک بڑھانے کی ضرورت نہیں‘‘ کیونکہ ان کیلئے بھائی صاحب اور وفاقی وزراء ہی کافی ہیں جو کافی محنت سے یہ کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں جبکہ نیب پر اس سلسلے میں اعتماد بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اب اس کا ریگولیٹر کوئی اور ہے جس کیلئے قانون سازی کرنے کا ارادہ ہے کہ سابق وزیراعظم کی جس طرح صورت بحال کی گئی ہے‘ اسی طرح انہیں نیب کے ریگولیٹر کے طور پر بھی بحال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''شریف خاندان پر تیر چلانا کہاں کا انصاف ہے‘‘ کیونکہ انہیں اللہ میاں نے جو کچھ دیا ہے‘ چھپڑ پھاڑ کر دیا ہے‘ حتیٰ کہ چھپڑ ہی ختم ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ ''احتساب کرنا ہے تو بلا تفریق‘ بلا جھجک سب کا کریں‘‘ جبکہ شریف خاندان کا احتساب امید ہے چند سال تک ختم ہو جائے گا کیونکہ نئے اثاثوں کا بھی سراغ لگایا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
نواز لیگ اور پی ٹی آئی کو منشور سے شکست دیں گے:آصف زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''نواز لیگ اور پی ٹی آئی کو منشور سے شکست دیں گے‘‘ جسے اچھی طرح جھاڑا پونچھا جا رہا ہے اور جو اسی مقصد کیلئے سنبھال کر رکھا ہوا تھا کہ ان دونوں پارٹیوں کو شکست دے سکیں جبکہ گزشتہ عام انتخابات کے موقع پر تلاش کے باوجود یہ ہمیں دستیاب ہی نہ ہوا تھا اور اسی وجہ سے شکست کھانا پڑی۔ انہوں نے کہا کہ ''پنجاب میں تیاری کے ساتھ الیکشن لڑیں گے‘‘ اور ضمانتیں بچانے میں تاریخی کامیابی حاصل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''2013ء میں حالات اور تھے‘‘ اگرچہ حالات اس سے بھی بدتر ہیں لیکن امید ہے کہ ہمارے کچھ کام عوام اور کچھ باتیں فوج نے بھلا دی ہوں گی بلکہ ابھی پچھلے ہی دنوں ہماری طرف سے فوج کے حق میں بیانات بھی آئے ہیں اور یوسف رضا گیلانی صاحب کی طبیعت بھی ناساز ہو گئی ہے اور اس وجہ سے کم از کم ہمدردی کے ووٹ ہمیں ضرور مل سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز بلاول ہائوس میں ٹکٹ ہولڈروں کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
ہم مقدمات سے گھبرانے والے نہیں ہیں:مریم نواز
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ہم مقدمات سے گھبرانے والے نہیں‘‘ البتہ جیل خانے کی بات اور ہے‘ اباجان کو سانپوں اور بچھوئوں کے ساتھ گزر بسر کرنے کا تجربہ نہیں۔ اب ارادہ ہے کہ جاتے ہی نصیب دشمنان بیمار پڑ جائیں گے اور ہسپتال میں اپنا وقت آسانی سے گزار لیں گے کیونکہ یہی آخری ہتھیار بھی ہے جبکہ شہزادگان سے اس دفعہ ہر گز کوئی امید نہیں ہے۔ ماسوائے قطری شہزادے کے خط کے، جسے پیش کرنے کا الٹا ہی اثر پڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ ''کارکن ہمارا اثاثہ ہیں‘‘ اگرچہ ہمارے اصل اثاثہ جات کچھ اور ہی ہیں جنہیں فروخت کرنے کیلئے تلاش کیا جا رہا ہے کیونکہ خود ہمیں بھی ان کی تعداد معلوم نہیں ہے اور بسیار کوششوں کے بعد ابھی تک ایک اثاثہ ہی بکا ہے جبکہ بحق سرکار ضبط ہو جانے کے ڈر سے کوئی خریدار بھی ادھر کا رخ نہیں کر رہا۔ آپ اگلے روز لاہور میں خواتین کارکنوں کے ایک گروہ سے خطاب کر رہی تھیں۔
دفعہ یا دفہ؟
لندن سے ممتاز شاعر اور ہمارے دوست ضمیر طالب نے فون پر بتایا ہے کہ انہوں نے میری جملہ کتابیں دیکھی ہیں جن میں انہوں نے ہر جگہ دفعہ کو دفہ کے وزن پر لکھا پایا ہے‘ کیا یہ صحیح ہے؟ جبکہ دفعہ فعلن کے وزن پر ہے اور اساتذہ نے بھی اسے اسی وزن پر باندھا ہے۔ میرا جواب تھا کہ آپ درست کہہ رہے ہیں لیکن بولنے میں دفعہ کی عین ادا نہیں کی جاتی‘ بیشک اس کی پہلے مثال موجود نہ ہو لیکن کئی الفاظ ایسے ہیں جن کا تلفظ رفتہ رفتہ اپنی سہولت کی خاطر تبدیل کر لیا گیا۔ مثلاً جگہ کو پہلے جاگہ لکھا جاتا تھا بلکہ میں نے تو کئی بار جگہوں کو جگاہوں بھی لکھا دیکھا ہے اور چونکہ دفعہ کی عین بولنے میں ادا ہی نہیں ہوتی اس لیے اسے دفہ کے طور پر بھی باندھا جا سکتا ہے جس طرح شاعری میں مصرعہ‘ مصرع کے وزن پر بھی باندھا جاتا ہے۔ چنانچہ لفظ پہلے غلط العام بنتا ہے اور پھر اسے صحیح مانا جاتا ہے۔ تاہم مجھے اس پر اصرار نہیں ہے۔ آپ کی نشاندہی کیلئے شکر گزار ہوں۔
اور اب شیخوپورہ سے اظہر عباس کے تازہ اشعار:
کس نے کہا کہ چپ ہوں میاں بولتا نہیں
جب آگ بولتی ہو دھواں بولتا نہیں
یوں تو ہر ایک شخص کا اپنا ہی شور ہے
لیکن کسی سے کوئی یہاں بولتا نہیں
بس یونہی پوچھتا ہوں مکینوں کا حال چال
برسوں سے بند ہے یہ مکاں‘ بولتا نہیں
سر کھا لیا ہے دل نے مرا بول بول کر
کہتا ہوں میں جہاں یہ وہاں بولتا نہیں
دل میں اترتا جاتا ہے اس کا کہا ہوا
چاہے وہ شخص میری زباں بولتا نہیں
آج کا مطلع
ساتھ رکھنا تھا جسے اس کو جدا رہنے دیا
دل کے اندر ہی محبت کو پڑا رہنے دیا