"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں‘ متن اور ضمیر طالب

دھرنوں اور لاک ڈائون کے باوجود
ترقی کا سفر رکنے نہیں دیا : شہبازشریف
خادم اعلی پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''دھرنوں‘ لاک ڈائون کی منفی سیاست کے باوجود ترقی کا سفر رُکنے نہیں دیا‘‘ کیونکہ جب ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے تو ترقی کا سفر اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ بہت کچھ چلا بھی گیا تو بھی کچھ نہ کچھ تو باقی بچے گا ہی۔ انہوں نے کہا کہ ''شفافیت‘ معیار اور رفتار پنجاب حکومت کا طرۂ امتیاز ہے‘‘ اور اگر سچ پوچھیں تو انہی تینوں کی وجہ سے سارا کام خراب ہوا ہے اور‘ اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ ان کی مقدار ذرا کم رکھنی چاہیے تھی تاکہ کسی کو شک نہ پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ''ماضی کے کرپٹ حکمرانوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا‘‘ اور‘ دہانہ چونکہ پہلے ہی کھلا ہوا تھا اس لیے بعد میں آنے والوں کے لیے اور کوئی چارہ کار ہی نہ تھا کہ اللہ کا نام لے کر ملک کو اس میں دھکیل دیتے جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے‘ اس لیے اب کیا کیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز ارکان اسمبلی سے گفتگو کر رہے تھے۔
مجھے کیوں نکالا کا جواب نوازشریف اور عوام کو پتہ ہے : سعد رفیق
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''مجھے کیوں نکالا کا جواب نوازشریف اور عوام کو پتہ ہے‘‘ بلکہ انہیں تو یہ بھی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ریفرنسز کا کیا فیصلہ آنے والا ہے لیکن اس کے باوجود مجھے کیوں باندھا کی گردان کرتے نظر آئیں گے کیونکہ علم جہاں سے بھی ملے حاصل کرنا چاہیے چاہے آپ کو چین جانا پڑے اور مزید تسلی و تشفی کے لیے وہ چین کا سفر بھی اختیار کر سکتے ہیں کیونکہ اتنے بردارانہ اور گہرے تعلقات کے باعث انہیں مایوس نہیں لوٹنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''نون‘‘ لیگ نے عدلیہ کے وقار اور آزادی کے لیے تحریک چلائی‘‘ جو اب تک جاری ہے اور اس کے وقار اور آزادی میں اس قدر اضافہ ہو چکا ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہا اور وہ اس کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی کو آئندہ الیکشن میں اپنا کردار نظر نہیں آ رہا‘‘ جبکہ ہمیں تو صاف نظر آ رہا ہے اور اسی لیے ہم فکرمند بھی بہت ہیں۔ آپ اگلے روز پارٹی مشاورت کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نوازشریف اور ہم نے بہت کچھ اپنے
اندر دبا رکھا ہے: طارق فضل چوہدری
وزیرمملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے کہا ہے کہ ''نوازشریف اور ہم نے بہت کچھ اپنے اندر دبا رکھا ہے‘‘اور‘ اس میں سے رفتہ رفتہ نیب کی منحوس حرکات کی وجہ سے بہت کچھ باہر بھی آ رہا ہے لیکن وہ اس میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ میاں صاحب اور اسحاق ڈار کے صاحبزادگان لندن اور دبئی وغیرہ میں اسے کافی حد تک ٹھکانے بھی لگا چکے ہیں جو اسی کار خیر کے لیے وہاں بیٹھے ہوئے ہیں اور عدالت کے بلانے پر بھی حاضر نہیں ہو رہے کیونکہ ان کے سامنے سب سے بڑا سوال اُن کی ترجیحات کا ہے۔ انہوں نے کہا ''ایسا نہ ہو ملکی مفاد میں کسی کو بولنا پڑے‘‘ کیونکہ اگر نہ بھی بولیں تو پھر بھی یہ سب کچھ خفیہ نہیں رکھا جا سکتا جبکہ یہ سب کچھ ہم نے ملکی مفاد ہی کی خاطر کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ''آئیں مل کر اپنا اپنا کام کریں‘‘ کیونکہ مل جل کر کرنے میں ہی برکت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اسٹیبلشمنٹ کا کام حکم کی تعمیل ہے‘‘ ویسے بھی‘ ہم نے اس کے حکم کی اب تک کافی تعمیل کی ہے‘ لہٰذا اب اس کی باری ہے کہ ہمیں اپنے آپ بھی کچھ کرنے دے اگرچہ ہم نے جو کچھ اپنے آپ کیا ہے اُسی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پارٹیوں کو توڑنا کسی انٹیلی جنس کا کام نہیں‘‘ جبکہ ہم تو ان کے اشارے پر پہلے ہی ٹوٹنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کر رہے تھے۔
مظاہرین قانون کو ہاتھ میں لینے سے
گریز کریں : چوہدری احسن اقبال
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''مظاہرین قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کریں‘‘ کیونکہ حکومت کی رٹ پہلے ہی کہیں دکھائی نہیں دیتی جبکہ جملہ وزرائے کرام عدالتوں میں آتے جاتے سابق وزیراعظم اور ان کے اعزہ کو پروٹوکول دینے میں بری طرح مصروف ہیں اور وزیر خزانہ ویسے ہی ملک بدر ہو چکے ہیں اور میرا اپنا حال یہ ہے کہ رینجرز نے بار بار کی یاددہانی کے باوجود یہ بتانا گوارا نہیں کیا کہ میری حکم عدولی کیوں کی گئی تھی ‘ ان حالات میں مظاہرین ،جو تھوڑا بہت قانون اور اس کی پاسداری باقی رہ گئی ہے کم از کم اس کو تو ہاتھوں میں لینے سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ ''امید ہے کہ حکومت کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا‘‘ اور ہمارا انتہائی قدم بھی یہی ہو گا کہ ان سے بار بار درخواست کرتے رہیں کیونکہ پولیس تو ساری کی ساری حکومت‘ اس کے عزیزوں اور ان کے دوستوں کے پروٹوکول میں مصروف رہتی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اور‘ اب مانچسٹر سے ضمیر طالب کے کچھ اشعار
کھو گیا تھا جو کسی اور زمانے میں کہیں
وہ کسی اور زمانے سے نکل آیا ہے
ڈھونڈتا پھرتا تھا میں اور کسی چہرے میں
وہ کسی اور ہی چہرے سے نکل آیا ہے
...............
روشنی کی تصویر بنا رکھی ہے میں نے 
میرے گھر سے کیسے اُجالا جا سکتا ہے
وہ جو برتن میں کبھی ڈالا ہی نہیں ہوتا
وہ برتن سے کیسے نکالا جا سکتا ہے
آج کا مقطع
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو‘ ظفرؔ
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں