"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن‘ ٹوٹا اور شاعری

ہمیشہ پی سی او کے تحت حلف لینے والے کہتے
ہیں‘ میں صادق اور امین نہیں: نواز شریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ہمیشہ پی سی او کے تحت آمروں سے حلف لینے والے کہتے ہیں کہ میں صادق اور امین نہیں‘‘ ہاں‘ یاد آیا‘ پی سی او کے تحت آمر سے حلف لینے والے تو افتخار چودھری تھے جن کی نظربندی کے خلاف میں نے لانگ مارچ کیا تھا تاہم اگر مزید کوئی جج بھی نظر بند ہوتا ہے تو میں اس کے حق میں بھی لانگ مارچ کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ ''بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر مجھے نکالا گیا‘‘ اگرچہ اصل معاملہ اس تنخواہ کو چھپانے اور گوشوارے میں شامل نہ کرنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''مجھ پر ایک پیسے کی بھی کرپشن ثابت نہیں ہوئی‘‘ اور جج صاحبان کو ریفرنسز کے فیصلے تک انتظار کر لینا چاہئے تھا جس سے یہ سارا معاملہ کھل کر سامنے آنے والا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''مائنس ون فارمولے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا‘‘ البتہ مائنس آل کی بات اور ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''آئین و قانون کی حکمرانی کیلئے مارچ کروں گا‘‘ جو ہر جگہ ہو سکتا ہے حتیٰ کہ جیل میں بھی‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز کوئٹہ میں خطاب کر رہے تھے۔
وعدہ کروں گا کہ نانا اور والدہ کی طرح سیاست کروں گا: بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''وعدہ کرتا ہوں کہ نانا اور والدہ کی طرح سیاست کروں گا‘‘ یعنی والد صاحب کی طرح ہرگز نہیں‘ تاہم وہ میرے سر پر سوار ہی اتنے رہیں گے کہ بالآخر مجھے انہی کی طرح کی سیاست کرنی پڑے گی۔ اس لیے پیشگی معذرت۔ انہوں نے کہا کہ ''دیہی اور شہری بنیاد پر سیاست نہیں کروں گا‘‘ اور صرف ہوائوں اور فضائوں میں سیاست کرنے کی کوشش کروں گا کیونکہ دیہات اور شہروں میں تو کہیں ہمارا نام و نشان تک باقی نہیں رہا اور اس لیے بھی والد صاحب کی رہنمائی درکار ہوگی کیونکہ ان کی فضیلت سے ہوائیں محفوظ رہی ہیں نہ فضائیں۔ انہوں نے کہا کہ '' شہر کو بدلنے کیلئے آپ کا ساتھ چاہئے‘‘ تاکہ اس کی کچھ صفائی ستھرائی ہی ہو جایا کرے جیسا کہ کراچی شیشے کی طرح چمکتا دمکتا نظر آتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں راجہ پرویز اشرف کی رہائشگاہ پر محفل میلاد سے خطاب کر رہے تھے۔
مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے
ملک کو چلنے دیں: احسن اقبال
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے ملک کو چلنے دیں ‘‘کیونکہ ہم ان سے صرف گزارش ہی کر سکتے ہیں اور حکومتی رٹ باقی نہ رہے تو منت سماجت ہی سے کام چلایا جاتا ہے جیسا کہ فیض آباد دھرنے میں چلایا گیا تھا۔ البتہ اب میاں صاحب کی ناراضی اورہدایت پر ان کے خلاف بھی بھرپور ایکشن لینے کا ارادہ کر لیا ہے جبکہ معاہدے کو بھی منسوخ کرنے کیلئے ان کے خلاف مقدمات بھی چلائے جائیں گے۔ پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا کیونکہ میاں صاحب اگر فوج اور عدلیہ کے خلاف نعرۂ مستانہ بلند کر سکتے ہیں تو یہ مولوی بے چارے کیا چیز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک میں نفرت کا کھیل کھیلا جا رہا تھا‘‘ جبکہ میاں صاحب اپنی ہر تقریر میں محبت کی نہریں بہا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''انتشار پھیلانے والوں کو منہ کی کھانا پڑی‘‘ کیونکہ اگر فوج بیچ میں نہ پڑتی تو ہم خود منہ کی کھا رہے تھے۔ آپ اگلے روز پشاور میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
جاوید ہاشمی کی واپسی؟
بزرگ سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نواز لیگ میں شامل ہونے کیلئے ایک اطلاع کے مطابق پوری طرح تیار ہو چکے ہیں اور میاں نواز شریف نے انہیں فون کر کے ملاقات کیلئے بلا لیا ہے۔ اگرچہ اس اطلاع پرلیگی چیئرمینوں نے ایک رپورٹ کے مطابق شدید احتجاج کیا ہی اور لوٹا‘ لوٹا کے نعرے بھی لگائے ہیں لیکن میاں نواز شریف مخدوم صاحب کی خدمات کو فراموش نہیں کر سکتے کیونکہ جب وہ تحریک انصاف میں تھے تو اس پارٹی کی اندرونی ڈائری باقاعدگی سے میاں صاحب کو دیتے رہے ہیں اس لیے بہتر تو یہی تھا کہ میاں صاحب انہیں کسی اور جماعت میں شامل ہونے کا مشورہ دیتے تاکہ وہ اس جماعت کی ڈائری بھی ان تک پہنچاتے رہیں جبکہ یہ خوشہ بھی موجود ہے کہ نواز لیگ میں شامل ہونے کے بعد اس جماعت کی ڈائری کسی مخالف جماعت کو فراہم کرتے رہیں۔ اگرچہ ان پر کئی ایکڑوں کی کوٹھیوں کے مالک ہونے اور ممنوعہ ادویات کے استعمال کا بھی الزام لگایا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ تاہم اس عمر میں ایسی ادویات کا استعمال عیاشی نہیں بلکہ مجبوری کہلاتا ہے۔
اور اب مانچسٹر سے ضمیر طالب کے اشعار:
کوئی چراغ جلائو کہ کچھ نظر آئے
نظر تو آئے اندھیرا کہاں تک آ گیا ہے
کھو گیا تھا جو کسی اور زمانے میں کہیں
وہ کسی اور زمانے سے نکل آیا ہے
میں جس جگہ ہوں وہاں پوچھتا نہیں کوئی
جہاں نہیں ہوں وہاں ڈھونڈا جا رہا ہے مجھے
اک میں ہوتا ہوں گھر میں اور اک تیری تصویر
چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہم لڑتے رہتے ہیں
اور اب آخر میں اسدؔ اعوان کے دو شعر:
خودبخود چھوڑگئے ہیں تو چلو ٹھیک ہوا
اتنے احباب کہاں ہم سے سنبھالے جاتے
ہم بھی غالبؔ کی طرح کوچۂ جاناں سے اسدؔ
نہ نکلتے تو کسی روز نکالے جاتے
آج کا مطلع
کچھ کرتے نہ کراتے ہیں
آتے ہیں اور جاتے ہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں