کچھ روز پہلے یہ کتاب موصول ہوئی تھی جس کے ٹائٹل اور پسِ سر ورق چھپے تمام اشعار بے وزن تھے۔ میں نے اٹھا کر ایک طرف رکھ دی۔ اگلے روز موصوف کا فون آیا کہ کتاب پر تبصرہ کب کر رہے ہیں تو میں نے کہاکہ اس میں تو وزن نام کی کوئی شے نہیں ہے‘ میں اس پر کیا تبصرہ کروں گا۔ یہ کہہ کر میں نے فون بند کر دیا۔ آپ نے دوبارہ کیا تو میں نے کہا۔ آپ کیوں میرا وقت برباد کر رہے ہیں‘ شاعری نہیں‘ یہ محض .....ہے اور فون پھر بند کر دیا۔ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ یہ میں نے کیا کہہ دیا۔ میں تو اس طرح کبھی نہیں کرتا کہ آخر ایک شاعر یا اس کی شاعری کی توہین کرنے کا مجھے کیا حق ہے۔ سو یہ تلافیٔ مافات کے طور پر یہ تحریر کہ خدا مجھے معاف کرے۔
یہ کتاب شاعر نے غالباً خود ہی چھاپی ہے کیونکہ اس پر کسی پبلشر کا نام نہیں ہے‘ البتہ قیمت 300 روپے درج ہے۔ انتساب اس طرح سے ہے‘ اپنے پیارے بیٹوں جہانگیر علی اور شاہ جہان علی کے نام۔ نیز یہ کہ اس کے جملہ حقوق بھی بحق مصنف محفوظ ہیں۔ آپ اپنی بات میں لکھتے ہیں:
میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے غزل کی دنیا میں دیوان میرؔ و غالبؔ کے بعد ہر پہلو پر بحث کرنے کی بنا پر ''معراج غزل‘‘ تیسرا مقام رکھتی ہے...
ٹائٹل پر جو اشعار درج کیے ہوئے ہیں وہ اس طرح سے ہیں:
یہ تخیل کی بلندی یہ تری نکتہ وری اے امانتؔ
کہتے ہیں کہ ہم میرؔ و غالبؔ کے ہمسائے ہیں
دے کر معراج غزل اے امانتؔ بزم سخن میں
تم نے بھی اپنے نام کا ایک دیا جلا دیا
(افسوس کہ اس شعر کا دوسرا مصرعہ وزن میں ہے)
پس سرورق ایک پوری غزل درج کی گئی ہے۔ تاہم پہلے تعارف کے اوپر درج یہ شعر ؎
یار نہ ہو جس محفل میں اس محفل کا مزہ کیا
قیس نہ ہو ہمراہ لیلیٰ تو مخمل کا مزہ کیا
(مخمل سے غالباً آپ کی مراد محمل ہے) اب غزل سنیے اور سر دھنیے:
اس کی الفت بھی اک خواب کی سی ہے
روح لحد میں بھی بے تاب سی ہے
اہل حسن میں وہ نمایاں نظر آئے
وہ صورت پھولوں میں گلاب کی سی ہے
جس کے جی میں آئے احتساب کرے
ہستی اپنی تو کھلی کتاب کی سی ہے
وہ پلکیں اٹھائے تو ہو جائے رات
پلک زدن اس کی حجاب کی سی ہے
تیری صورت دیکھ کے یاد آیا مجھے
عشوا ادا ہنسی میری جناب کی سی ہے
ہستی اس کی مستی ہی مستی ہے
جیسے بوتل ایک شراب کی سی ہے
بحر گریہ کنارے آ کر تو دیکھ
ایک روانی دریا چناب کی سی ہے
پوچھے گا امانت حشر میں کیا خدا حساب
زیست اپنی جب روزِ حساب کی سی ہے
سچ کہنے کی شرح یہاں پہ اے دوست
ہاتھ نے پہ تو پار کاب کی سی ہے
کس رخ زیبا کے غم میں اے امانتؔ
تیری حالت خانہ خراب کی سی ہے
آپ پیش لفظ میں یہ بھی لکھتے ہیں:
میں نے 300سے زائد اشعار جو انشاء اللہ العزیز جلد یا بدیر ضرب المثل یا زندہ اشعار کی صف میں شمار ہو سکتے ہیں‘ کوہائی لائٹ کر دیا ہے۔ جن اشعار کو میں نے رائونڈ اپ کیا ہے‘ ان کے علاوہ بھی کتاب میں درجنوں اشعار ایسے ہیں جو اس قبیل میں آ سکتے ہیں...
رائونڈ اپ کیے گئے اشعار میں سے کچھ آپ کی تفنن طبع کے لئے پیش ہیں:
خلوت میں دو گھڑی وہ ہمیں کیا ملے
کہ ہم پھر سے لوٹ آئے عہدِ شباب میں
تو کلیسا کعبہ سمجھا امانتؔ
گویا تجھ کو پاس حرم نہ تھا
یہ اور بات ہے کہ آتشِ دل نے اثر نہ لیا
پر‘ ہوا تو تمہاری پذیرائی کو بہ کو کی
مالی کی ستم گری پہ امانت پھٹ ہی پڑا وہ
جب گل سے ہم نے بات کی اس کی خوشبو کی
ہر گز غیروں کا نہیں ہاتھ ہے اس میں اپنوں کا
میرے غم کی کہانی سے میرے افسانے تک
ہم سے پہلے پہنچی ہماری بدبختی
ہم غم کو بھلانے امانتؔ جہاں بھی گئے
امید ہے آپ کی تسلی ہو گئی ہوگی اور اگر نہیں ہوئی یا کوئی کسر رہ گئی ہو تو ہمیں بتائیں‘ ہم ساری کتاب ہی آپ کے لئے نقل کر دیں گے کیونکہ شعر میں وزن کا تقاضا کرنے کی بجائے ان خیالات عالیہ سے مستفیدہونے کی ضرورت ہے جو چند دنوں تک ضرب المثل کی صورت میں آپ کے سامنے ہوں گے اور جتنے دن ہم نے ان جواہر پاروں سے آپ کو محروم رکھا‘ اس کے لئے ہماری دلی معذرت۔ پھر ایسی غلطی نہیں ہوگی۔
آج کا مطلع
کہیں شہر میں آنیاں جانیاں کر
اندھیرے میں آ اور تابانیاں کر