میری تقریب میں بلاول کی موجودگی
جمہوریت کی مضبوطی کی دلیل ہے : وزیراعظم
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''میری تقریب میں بلاول کی موجودگی جمہوریت کی مضبوطی کی دلیل ہے‘‘ کیونکہ پیپلز پارٹی جُوں جُوں ہمارے نزدیک آئے گی جمہوریت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی کیونکہ حکومت کو کسی بحران میں جب بھی کوئی سہارا ملتا ہے‘ جمہوریت مضبوط ہونے لگتی ہے اور پہلے ایک دو بار ایسا ہو بھی چکا ہے جبکہ دونوں کی بقاء بھی اسی میں ہے کہ حسب روایت ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتے اور باریاں لیتے رہیں جبکہ اس بار ہم انہیں باری دینے پر غور کر سکتے ہیں اور عمران خاں سے بچنے کا یہی ایک واحد طریقہ بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''غیر یقینی صورتحال نہیں‘ مدت پوری کریں گے‘‘ اگرچہ ہماری تو کوشش تھی کہ جمہوریت کا بستر ہی گول کر دیا جائے تاکہ مظلوم بن کر عوام کو مُنہ دکھانے کے قابل رہ جائیں لیکن اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ ہم اچھی طرح خوار ہو لیں تاکہ عوام کو مُنہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہیں اگرچہ وہ پہلے ہی کافی ناقابل دید ہو چکا ہے۔ آپ اگلے روز ڈیووس میں خطاب کر رہے تھے۔
کچھ ایشوز پر پارٹی چھوڑ کر قومی سوچ اپنانی چاہیے : چوہدری نثار
سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد خاں نے کہا ہے کہ ''کچھ ایشوز پر پارٹی چھوڑ کر قومی سوچ اپنانا ہو گی‘‘ اسی لیے میں بھی پارٹی چھوڑنے پر غور کر رہا ہوں کیونکہ پرویز رشید والے معاملے میں سابق وزیراعظم میرا ساتھ دینے یا معاملہ رفع دفع کرانے کی بجائے کھُل کر پرویز رشید کا ساتھ دے رہے ہیں‘ ویسے بھی ان معززین کیخلاف ریفرنس پر ریفرنس دائر ہو رہے ہیں اور دیوار پر لکھا صاف نظر آ رہا ہے‘ دُنیا بھر کو بھی اور انہیں بھی۔ انہوں نے کہا کہ ''شیریں مزاری نے اچھی بات کی‘‘ بلکہ کچھ دنوں سے مجھے سارے ہی پی ٹی آئی والوں کی باتیں اچھی لگنے لگی ہیں‘ پتا نہیں یہ اتنی اچھی باتیں کہاں سے لاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''اچھی بات کی حمایت کرنا گناہ نہیں‘‘ اس لیے پی ٹی آئی والے آئندہ بھی جو اچھی باتیں کریں گے انہیں میری بھرپور حمایت حاصل ہو گی۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں خطاب کر رہے تھے۔
خادم پاکستان بنا تو لوٹی دولت واپس لائوں گا : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''خادم پاکستان بنا تو لوٹی دولت واپس لائوں گا‘‘ اگرچہ اس سے پہلے اسے سپریم کورٹ ہی واپس لے آئے گی تاہم کہنے میں کیا ہرج ہے کیونکہ کہا تو میں نے پچھلے انتخابات سے پہلے بھی تھا اور اگر خدا نے توفیق دی تو 18ء کے بعد ہونے والے الیکشن سے پہلے بھی کہوں گا کہ آدمی اگر ایک بار کسی کام کا مصمم ارادہ کر لے تو وہ اپنے آپ ہی ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''آنے والے انتخابات میں عوام سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں‘‘ اور گزشتہ انتخابات کی طرح بلا سوچے سمجھے اور آنکھیں بند کر کے ووٹ نہ دیں ورنہ نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہیں‘ یہ دیکھیں کہ ''خدمت کرنے والی سیاست چاہیے یا لوٹ مار کرنے والی‘‘ اگرچہ خدمت ہی لوٹ مار کا وسیلہ بن جاتی ہے کیونکہ بھائی صاحب کے قول کے مطابق کرپشن کے بغیر ترقی ہو ہی نہیں سکتی۔آپ اگلے روز ملک وال میں جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
ہماری سیاسی گفتگو میں تبدیلی کی گنجائش ہے : مصدق ملک
مسلم لیگ نون کے رہنما ڈاکٹر مصدق ملک نے کہا ہے کہ ''ہماری سیاسی گفتگو میں تبدیلی کی گنجائش ہے‘‘ کیونکہ جب ساری سیاست ہی تبدیل ہونے جا رہی ہو اور اس میں بھی چند ہفتوں کا وقفہ باقی رہ گیا ہو تو اس کے علاوہ کیا کیا جا سکتا ہے‘ البتہ ہمارے قائد کی سیاسی گفتگو میں کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ وہ تو اب سمجھتے ہیں کہ ستیاناس اور سواستیاناس میں اب کوئی فرق باقی نہیں رہ گیا ہے اگرچہ وہ اداروں کو بے توقیر کرتے کرتے خود بے توقیر ہوتے جا رہے ہیں اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نااہلی سے بڑی بے توقیری اور کیا ہو سکتی ہے کہ جیل تو وہ دیکھ ہی چکے ہیں‘ بے شک چند دنوں کیلئے ہی سہی۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر سیاست دان ایک دوسرے کی مخالفت میں ریاست پر کیچڑ اُچھالیں تو یہ ٹھیک نہیں ہے‘‘ کیونکہ اگر کیچڑ اُچھالنے کیلئے اہم ترین ادارے موجود ہیں تو ریاست تک جانے کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر ہم ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کریں گے تو عام آدمی بھی نہیں کرے گا‘‘ جس کا ہم پر اعتبار پہلے ہی اُٹھ چکا ہے۔ آپ ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شرکت کر رہے تھے۔
اور‘ اب ناروے میں مقیم فیصل ہاشمی کے مجموعے ''ماخذ‘‘ سے ایک نظم :
میں جو موجود تھا
رات کی بے اماں وسُعتوں میں
کہیں کھو گیا آسماں‘ جس کو دیکھا گیا تھا کبھی
اب زمیں دوز ہے
اور زمیں نامرادوں کی اک پھیلتی
بے نشاں قبر ہے
رینگتے آنکھ کے منظروں میں
کئی اجنبی شہر ہیں
آج تک جن سے کوئی بھی گزرا نہیں
کیوں کسی کو کسی پر بھروسا نہیں
دُور جاتے ہوئے کارواں کو بُلاتا ہوں میں
ریت پر نقش پا کی طرح مٹتا جاتا ہوں میں
میں جو موجود تھا‘ اب کہیں بھی نہیں
جسم و جاں میرے بس میں نہیں
میں کسی کے تو کیا اپنی بھی دسترس میں نہیں
اور‘ اب آخر میں جھنگ صدر سے سیدہ سیفو کا یہ خوبصورت مطلع :
عرصۂ ہجر میں لکھّی ہو اِک نظم ہے تُو
جو کبھی بھی نہ میسّرہوئی وہ بزم ہے تُو
آج کا مطلع
تُجھے بھی رنج مرے حال پر نہیں آیا
نکل کے میں بھی ترے جال سے نہیں آیا