نواز شریف
کیا دیکھتا ہوں کہ 300 ارب کے چیک کاٹ کر نیب والوں کے ماتھے مار چکا ہوں‘ قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد ایک آدھ روز میں رہائی بھی ہو جائے گی۔ اپنے بیرک نما کمرے سے نکل کر دو تین بار دہاڑا ہوں لیکن کوئی خاص مزہ نہیں آیا چنانچہ تین چار بار بکرا بلایا ہے تو تسلی ہوئی ہے‘ قیدی لوگ بھی اس پر بہت خوش ہوئے ہیں لہٰذا اب سوچا ہے کہ انتخابی نشان بھی شیر کی بجائے بکرا ہی ٹھیک رہے گا کہ ہریسا اور سری پائے وغیرہ تو اس کے بن سکتے ہیں‘ شیر جیسی بیکار چیز کے نہیں۔
میرے حکم کے مطابق عباسی نے شہبازشریف‘ حمزہ شہباز اور چوہدری نثار کو حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے کیونکہ میں نے فوری طور پر مریم نواز کو اگلے وزیراعظم کے طور پر نامزد کر دیا ہے اور میری سزا کے بعد جو وزراء اور ارکان اسمبلی ادھر ادھر ہو گئے تھے وہ بھی واپس آنا شروع ہو گئے ہیں۔ مریم کے مدت پوری کرنے کے بعد میری نااہلی کی مدت بھی ختم ہو چکی ہو گی اس لیے عوام کی خدمت کے لیے خاکسار ایک بار پھر دستیاب ہو گا تاکہ اس 300 ارب کی کچھ تلافی ہو سکے‘ ہیں جی؟ اور اگر میری نااہلی ختم نہیں ہوتی تو اسمبلی سے قانون پاس کروا لیا جائے گا کیونکہ نااہل ہو جانے کے بعد اگر میں پارٹی کا صدر رہ سکتا ہوں تو ایک قانون اور بھی پاس ہو سکتا ہے۔
جے آئی ٹی کے ارکان کا مکّو ٹھپنے کی بھی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں اور کچھ خدمت گاروں کے لیے بھی ترقی اور ایوارڈز دینے کی تاکید کر دی ہے جبکہ نیب کا مناسب انتظام بھی کرنا ہو گا نیز کوئی ایسا طریقہ بھی اختیار کرنا ہو گا کہ پارلیمنٹ کے ذریعے جملہ منصفوں کی خدمت کا بھی کوئی طریقہ وضع کر لیا جائے تاکہ آئندہ معاملات مرضی کے مطابق چلتے رہیں۔ اس کے علاوہ وکیل صاحبان سے بھی فیس واپسی کا مطالبہ کیا جائے کیونکہ میری سزایابی اور نااہلی میں بڑا حصہ انہی کا تھا ویسے بھی اب تو ہمیں پیسے پیسے کی ضرورت ہے نیز قرض اُتارو ملک سنوارو کی تحریک دوبارہ شروع کی جائے کہ اس سے بھی کافی حد تک تلافی ہو سکتی ہے۔
جیسا کہ عرض کر چکا ہوں‘ ایک عدد صحتمند قسم کا بکرا فوری طور پر مہیا کر لیا گیا جس کو میں نے اپنے ہاتھ سے چارہ کھلاتا ہوں اور بڑا مزہ آتا ہے۔ شیر کا تو گوشت کا خرچہ ہی بہت زیادہ تھا جبکہ اب ہمیں ہر طرح کی کفایت شعاری سے کام لینا ہو گا یہ بھی تاکید کر دی ہے کہ قادری صاحب اور دیگر مولوی صاحبان کی خاطر خواہ خدمت کر کے ان سے بھی گلوخلاصی کرائی جائے کیونکہ تیزرفتار ترقی کا جو عمل دوبارہ شروع ہونے والا ہے اور اس کے لیے جس امن و آشتی کی ضرورت ہے‘ اس کے لیے مناسب حالات پیدا کئے جائیں۔ رانا ثناء اللہ خواجہ سعد رفیق اور دیگر زعماء کی خصوصی خدمات کے صلے میں آئندہ پراجیکٹس کے ٹھیکے انہی کو دیئے جائیں۔ اس کے ساتھ ہی سب سے ضروری بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ ہی کے ذریعے چیئرمین نیب کو بھی مزہ چکھانے کا انتظام کیا جائے اور اگر کسی معاملے میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو باقی کام میں خود آ کر کر لوں گا۔
بکرا میری طرف محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ آج تو اسی کی باتیں کرنے کو جی چاہتا ہے۔ مجھ سے کافی گھل مل گیا ہے۔ کافی تمیزدار ہے۔ مینگنیوں وغیرہ سے کمرہ خراب نہیں کرتا بلکہ واش روم چلا جاتا ہے اور فارغ ہونے کے بعد سینگ سے دبا کر فلش بھی چلا لیتا ہے۔ میری طرح کھانے پینے کا ماشاء اللہ شوقین ہے۔ ڈرائی فروٹ پورے ذوق و شوق سے کھاتا ہے بلکہ میرے کھانے کے ساتھ جو سویٹ ڈش آتی ہے اس کا بھی منتظر رہتا ہے اس کی اگلی ٹانگوں میں دو جھانجھریں بھی پہنا رکھی ہیں تاکہ پتا چلتا رہے کہ جیل میں وہ کس طرف اور کہاں ہے۔ قیدی بھی اس سے کافی مانوس ہو چکے ہیں اور اس کے ساتھ کھیلتے اور پیار دُلار کرتے رہتے ہیں۔ ان کا اُلٹا سیدھا کھانا کھا کر بدپرہیزی کا بھی مرتکب ہوتا رہتا ہے اور اپنی پھکی میں اسے بھی حصے دار بنانا پڑتا ہے۔
آج صبح یہ بہت اُداس نظر آرہا تھا میں نے سوچا جوان جہان ہے‘ آخر اس کے جذبات بھی ہوں گے کیوں نہ اس کی دل پشوری کے لیے ایک بکری کا انتظام کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے جیل سپرنٹنڈنٹ سے بات کی تو وہ بڑی ترشروئی سے بولا کہ میاں صاحب یہ جیل ہے‘ اسے باڑہ نہ بنائیں۔ بکرے کے لیے آپ کی فرمائش پوری کر دی تھی‘ اسی پر گزارہ کریں باہر نکلتا ہوں تو اس کا دماغ درست کرنے کے لیے بھی کچھ کرنا ہو گا۔ آخر بکرے کے جذبات کا خیال نہ کرنا بے رحمی حیوانیات کے تحت تو آنا ہی چاہیے۔
شیر پر تو میں سواری کر ہی لیا کرتا تھا۔ آج سوچا‘ کافی موٹا تازہ ہے اس پر بھی سواری کرتے ہیں۔ اس کے اوپر بیٹھتے ہی لگا تھا کہ قیدیوں نے شور مچا دیا ہے میاں صاحب کیا کرتے ہیں اس کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ مہنگائی سے لوگوں کی کمر تو ٹوٹتے دیکھی ہے‘ بکروں کی نہیں۔ اس کے بعد اس نے مجھے غور سے دیکھا‘ میری جانب بڑھا اور کم بخت نے میرے پیٹ میں اتنے زور سے ڈھڈ ماری کہ درد سے میری چیخ نکل گئی اور اسی چیخ کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی...
اور‘ اب حسب معمول خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل :
ہوائوں پر جو بھاری ہو گیا ہوں
کوئی اُلٹی اُڈاری ہو گیا ہوں
مجھے روکا ہُوا تھا زندگی نے
مرا ہوں اور جاری ہو گیا ہوں
کسی پیاسے کی شاید بددعا ہو
بہت میٹھا تھا‘ کھاری ہو گیا ہوں
میں دامِ کفر سے نکلا ہوں‘ اور اب
کسی بُت کا پجاری ہو گیا ہوں
سوالی تھا ترا گاہے بگاہے
مگر اب تو بھکاری ہو گیا ہوں
سمجھداروں کو سمجھانا پڑا ہے
سمجھنے سے جو عاری ہو گیا ہوں
کوئی عزت سے پیش آتا نہیں تھا
سو‘ تنگ آ کر بُخاری ہو گیا ہوں
لگا رکھا ہے لفظوں کا تماشا
کہ شاعر سے مداری ہو گیا ہوں
ہُنر کا سانپ چل نکلا ہے جب سے
ظفرؔ‘ خالی پٹاری ہو گیا ہوں
آج کا مطلع
پانے کے برابر نہ ہی کھونے کے برابر
تھی ایک ملاقات نہ ہونے کے برابر