"ZIC" (space) message & send to 7575

سالگرہ‘ تقریب رونمائی‘ نشست اور شاعری

محبی عطاالحق قاسمی کی آج سالگرہ ہے جس میں مجھے بھی مدعو کیا گیاتھا لیکن میں نے بھاری دل کے ساتھ معذرت کر دی۔ اس سے پہلے برادرم ضیاء شاہد کی کتاب کی تقریب رونمائی میں شرکت کرنے سے معذرت کر چکا ہوں کہ میں آج کل گھر سے بہت کم نکلتا ہوں ورنہ عام حالات میں یکم فروری کو سالگرہ اور دو کو تقریب رونمائی میں شرکت کر سکتا تھا لیکن میرا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ میں جس تقریب میں جائوں‘ اس کے لئے مجھے اڑھائی دن درکار ہوتے ہیں جو اس مثال سے واضح ہوگا کہ ایک جگہ چند بابے صبح کی سیر اور رننگ پر تبادلۂ خیالات کر رہے تھے۔ کوئی کہتا میں پندرہ منٹ دوڑتا ہوں تو کوئی آدھ گھنٹہ وغیرہ۔ عقب میں ایک ضعیف و نزار بابا بھی بیٹھا تھا۔ اس سے پوچھا تو وہ بولا کہ میرے تو پورے دو گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ انہوں نے بریک اپ پوچھا تو حضرت نے کہا کہ نصف گھنٹہ میں اپنے آپ کو دوڑ کیلئے ذہنی طور پر تیار کرتا ہوں۔ اس کے بعد پانچ منٹ دوڑتا ہوں اور ڈیڑھ گھنٹہ بے ہوش رہتا ہے!
سو‘ میرا حساب بھی کم وبیش ایسا ہی ہے یعنی کسی تقریب میں شرکت کے بعد مجھے بھی ڈیڑھ دن تک آرام کرنا پڑتا ہے اس لیے اگر یکم کو قاسمی کی سالگرہ میں شریک ہوتا تو لمز میں اپنے ساتھ ہونے والی ایک نشست میں شامل نہیں ہو سکتا تھا جو کل یعنی دو کو ہونی ہے اور جس کیلئے میں اظہار رضا مندی کر چکا تھا۔ اس لیے امید ہے کہ عطا میری غیر حاضری پر معذرت کو قبول کریں گے۔ انہیں سالگرہ کی بہت بہت مبارکباد‘ ان کی ایک گزشتہ سالگرہ پر جو قطعہ پڑھا تھا‘ تند مکرر کے طور پر دوبارہ پیش ہے:
مزاح و طنز نگاری جو تجھ پہ ناز کرے
شعورِ شاعری بھی خم سرِ نیاز کرے
یہی ہے آج ترے سارے دوستوں کی دعا
کہ اور بھی تری رسی خدا دراز کرے
اسی خوشی کے دوران ایک افسوسناک خبر یہ ہے کہ بھارت کے سینئر اور ممتاز غزل گو محمد علوی انتقال کر گئے ہیں۔ ان کا تعلق احمد آباد سے تھا جہاں وہ پیدا بھی ہوئے اور وفات بھی ہوئی۔ انتقال نوے برس کی عمر میں ہوا۔ آپ ممتاز نقاد حارث علوی کے کزن تھے۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام ''خالی مکان‘‘ ان کی شہرت کا باعث بنا۔ انہیں حکومت کی طرف سے متعدد ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تاہم ایک رابطہ ضرور قائم تھا۔ میرے مجموعۂ کلام ''رطب ویابس‘‘ میں ایک شرارتی سا شعر ان کے حوالے سے بھی ہے ؎
شاعر چھوٹا نہیں ہے اب وہ
پہلے علوی تھا‘ اب ہے علوا
جناب شمس الرحمن فاروقی کے جریدے ''شب خون‘‘ میں تادیر ہم اکٹھے چھپتے رہے۔ کبھی کبھار خط کتابت بھی رہی۔ ان کا ایک خوبصورت شعر دیکھیے:
میں خود کو مرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوں
یہ ڈر بھی ہے کہ کہیں آنکھ کھل نہ جائے مری
علی یاسر نے اسلام آباد سے پوچھا ہے کہ اپنے ایک دوست کے ہاتھ اپنی کتاب ''غزل بتائے گی‘‘ بھجوائی تھی۔ امید ہے مل گئی ہوگی۔ نہیں بھائی‘ بالکل نہیں ملی‘ دوبارہ زحمت کیجئے لیکن کسی دوست کے ہاتھ نہیں بلکہ میرے اس ایڈریس پر:68۔ بی جی او آر تھری‘ شادمان کالونی لاہور۔ایک صاحب نے میرا فون نمبر پوچھا ہے جو یہ ہے:
0333-4374597
واضح رہے کہ میرا ای میل کام نہیں کر رہا۔
اور اب آخر میں نیٹ ہی سے دستیاب چند شعر:
شور ایسے مچا رہے ہو تم
جیسے دنیا چلا رہے ہو تم
چاک پر شکل کیسے بنتی ہے
کوزہ گر کو بتا رہے ہو تم
یہ کہانی مری بُنی ہوئی ہے
اور مجھی کو سنا رہے ہو تم
(عمران عامیؔ)
تیری خاموشی ہی بڑھاتی ہے
تیری آواز پر یقین مرا
قبریں اپنے خالی پن کو روتی ہیں
ہم سب اپنے اندر مرتے جاتے ہیں
دل ترے نام پر بسایا تھا
تو کہیں اور ہو گیا آباد
جس کی خاطر قافلہ روکا گیا
وہ مسافر چل دیا اٹھ کر کہیں
)ذیشان حیدر نقوی(
یہ سوچا تھا کہ کوئی روک لے گا
روانہ دیر تک ہوتا رہا میں
)محمد اویس راجہ‘ نیویارک)
جہان غیب سے لاتا ہوں نت نئی خبریں
کہ فی زمانہ یہی مخبری بہت ہے مجھے
)پرویز ساحرؔ(
ایک کھڑکی سے صدا آئی کہ تم کیسے ہو
پھر ترے شہر سے جانے میں بڑی دیر لگی
)سلیم شہزاد(
جو اختلاف ہے اس کو الگ تھلگ رکھ کر
جو اتفاق ہے اس کو بہم کیا جائے
)محمد ظہیر احمد مہاروی(
آج اک اور برس بیت گیا ان کے بغیر
جن کے ہوتے ہوئے ہوتے تھے زمانے میرے
)احمد شہزاد(
آج کا مقطع
جھلکی سی اک رُکی ہوئی دیوار پر ظفر
جھونکا سا کچھ دریچہ و در سے نکل گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں