"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں‘ متن‘ عباس تابش اور عامر سہیل

میری نااہلی سے ملکی ترقی کی رفتار کم ہو گئی : نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''میری نااہلی سے ملکی ترقی کم ہو گئی ہے‘‘ جو دراصل میری اپنی ترقی تھی‘ تاہم میری ترقی کو بھی ملکی ترقی ہی سمجھنا چاہیے کیونکہ عوام نے مجھے وزیراعظم منتخب کیا تھا جبکہ انہیں اچھی طرح سے معلوم تھا کہ میری ترقی ہی میں اُن کی ترقی مضمر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عدل کے لیے کشتیاں جلا کر نکلے ہیں‘‘ کیونکہ اب یہ کشتیاں ہی باقی بچی تھیں‘ باقی سارا کچھ اِدھر اُدھر ہوتا جا رہا ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''فیصلہ عوامی طاقت سے ختم کریں گے‘‘ تاہم‘ وہ فیصلہ اگر عوامی طاقت سے ختم ہو بھی گیا تو باقی جو پانچ سات فیصلے آنے والے ہیں‘ اُن کی بہت فکر ہے کیونکہ عوام کس کس فیصلے کو ختم کرتے پھریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم گھبرانے والے نہیں‘‘ بلکہ صرف وہ حواس کھو بیٹھے ہیں جن کی تلاش کے لیے کچھ احباب کی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام عمران خان سے دھوکہ نہ کھائیں‘‘ کیونکہ ان کے لیے خاکسار کا دھوکہ ہی کافی ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
آئین اور عدلیہ کی تضحیک قبول نہیں ہے : شاہد خاقان عباسی
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''آئین اور عدلیہ کی تضحیک قبول نہیں ہے‘‘ اور جو کچھ سابق وزیراعظم کر رہے ہیں‘ یہ اُن کا ذاتی معاملہ ہے اور میں آئین اور عدلیہ کے ساتھ ہوں کیونکہ میرے خلاف جو کارروائی شروع ہونے والی ہے اُس کے پیش نظر مجھے آئین اور عدلیہ ہی کا ساتھ دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام ترقی کے لیے درست فیصلہ کریں‘‘ کیونکہ الیکشن میں انہوں نے جو فیصلہ کیا تھا‘ اُس کا مزہ وہ ابھی تک چکھ رہے ہیں اور مہنگائی نے سب کی چیخیں نکال دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کو درست سمت میں ڈال دیا ہے‘‘ تاہم خطرہ یہ ہے کہ کہیں ایل این جی کا فیصلہ ملک کو پھر غلط سمت میں نہ ڈال دے۔ انہوں نے کہا کہ ''وزیراعظم میں ہی ہوں‘ اس میں کوئی شبہ نہیں‘‘ اگرچہ اختیارات سارے کے سارے سابق وزیراعظم ہی کے پاس ہیں‘ البتہ جونہی ریفرنسز کا فیصلہ آتا ہے‘ میں بااختیار ہو جائوں گا اگرچہ اختیارات جیل سے بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں جو کچھ زیادہ مناسب بات نہیں ہے۔ آپ اگلے روز چترال میں گولن گول منصوبے کا افتتاح کر رہے تھے۔
میگا پراجیکٹس کا جادُو عام انتخابات
میں سر چڑھ کر بولے گا : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''میگا پراجیکٹس کا جادُو عام انتخابات میں سر چڑھ کر بولے گا‘‘ بشرطیکہ اس نے اس سے پہلے ہی ہمارے سر چڑھ کر بولنا شروع نہ کر دیا‘ کیونکہ ان کے ذریعے جو میگا خدمت کی گئی تھی‘ اس کی تفصیلات بھی بہت جلد باہر آنے والی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پنجاب سپیڈ‘‘ کا ڈنکا بجتا ہے‘‘ اور اگر ہمارے سارے معاملات کھُل کر سامنے آ گئے تو ہمارے پاس صرف ڈنکا ہی ڈنکا رہ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام کی بھرپور خدمت نے لوگوں کے دل جیت لیے‘‘ لیکن افسوس کہ یہ بھرپور عوامی خدمت اب خواب و خیال ہو کر ہی رہ جائے گی‘ بلکہ ہو سکتا ہے وہ خدمت واپس ہی کرنی پڑ جائے جس کے آثار صاف نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''شفافیت‘ معیار اور تیزرفتاری پنجاب حکومت کا طرۂ امتیاز ہے‘ اگرچہ شفافیت کو چھپانے کی سرتوڑ کوشش کی گئی تھی لیکن اب یہ کم بخت نیب والے اُسے بھی طشت ازبام کرنے جا رہے ہیں اور ان سے خدا ہی پوچھے گا ۔ آپ اگلے روز مشاہد حسین سید سے ملاقات کر رہے تھے۔
قوم کا بچہ بچہ کشمیری عوام کے ساتھ ہے : فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''قوم کا بچہ بچہ کشمیری عوام کے ساتھ ہے‘‘ کاش کہ قوم کا بچہ بچہ میرے ساتھ بھی ہوتا جس کی قربانیاں کشمیری عوام سے کسی طور بھی کم نہیں ہیں اور میری قربانیوں کا ہمیشہ کم معاوضہ دیا گیا حالانکہ میری ہمدردیاں ہر حکومت کے ساتھ رہی ہیں‘ وہ سول ہو یا فوجی‘ کیونکہ حکومت ہی آپ کی قربانیوں کا اعتراف کر سکتی ہے بشرطیکہ وہ بہت کنجوس واقع نہ ہوئی ہو‘ حالانکہ سارا قومی خزانہ اس کی دسترس اور صوابدید پر ہوتا ہے اور وہ قربانیوں کا بڑھ چڑھ کر معاوضہ دے سکتی ہے‘ اور اب فاٹا کو پختونخوا میں ضم کر کے میرے ہی ٹھوٹھے پر ڈانگ ماری گئی ہے کیونکہ اگر یہ الگ صوبہ بن جائے تو مجھے مزید قربانیوں کا موقع مل سکتا تھا جن کا اجر اللہ تعالیٰ سے بھی ملتا اور خزانے سے بھی‘ لیکن اللہ معاف کرے‘ حسد کا عالم یہ ہے کہ کوئی کسی کو کھاتے پیتے نہیں دیکھتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب صاحب اسلوب شاعر عباس تابش کی ایوارڈ یافتہ کتاب ''شجر تسبیح کرتے ہیں‘‘ سے ایک غزل :
میں ڈر رہا ہوں نجومی کے پاس جاتے ہوئے
وہ رو پڑے نہ مرا زائچہ بناتے ہوئے
میں اس لیے بھی بہت چیختا کراہتا ہوں
کہ تھک نہ جائے کوئی مجھ پہ ظُلم ڈھاتے ہوئے
زمانہ یاد دلاتا ہے مجھ کو میرا نام
یہاں تک آ گئی نوبت تجھے بھلاتے ہوئے
بتا اے دربدری لفظ ہیں کہ اینٹیں ہیں
مکاں بنا لیا میں نے غزل بناتے ہوئے
اسی لیے تو مرے گھر میں روشنی نہ ہوئی
ہوا سے پوچھتا تھا میں دیا جلاتے ہوئے
عطا ہے جس کی وہی مجھ میں بولتا ہے میاں
سو میں بھی میں نہیں ہوتا غزل سناتے ہوئے
یہ میں جو تم کو فلک پر دکھائی دیتا ہوں
یہ پر لگے ہیں کسی اور کو اُڑاتے ہوئے
گلی کے موڑ کا میں بُوڑھا پیڑ ہوں‘ تابشؔ
نظر میں رکھتا ہوں سب لوگ آتے جاتے ہوئے
اور‘ اب آخر میں عامر سہیل کا یہ شعر :
کب تک ہو وفادار‘ یہ وعدہ نہیں لینا
اک سانس مجھے تم سے زیادہ نہیں لینا
آج کا مطلع
چراغ بجھ گئے سارے‘ دُھواں مسافر ہے
زمیں رُکی ہوئی ہے‘ آسماں مسافر ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں