"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں‘ متن اور صابر ظفر

اٹک میرا دوسرا گھر‘ کارکن میرا اثاثہ ہیں : نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''اٹک میرا دوسرا گھر اور نوجوان کارکن میرا اثاثہ ہیں‘‘ جبکہ ویسے تو سارے مُلک ہی کو اپنا گھر سمجھتا ہوں اور جمہوریت میرے اسی گھر کی لونڈی تھی جس کے ساتھ ظاہر ہے کہ لونڈیوں جیسا سلوک ہی کرنا پڑا لیکن آہستہ آہستہ جاتی اُمرا اور لندن کے گھروں سمیت سبھی اثاثے ہتھیائے جا رہے ہیں جو میرے خون پسینے اور نیک کمائی کا نتیجہ ہیں‘ اس لیے بہتر ہے کہ اٹک والے ہی میرے گھر کو ذرا فرنش کر دیں‘ ہیں جی؟جبکہ نوجوان کارکنوں کو واقعی میرا اثاثہ سمجھ کر اُن پر بھی ہاتھ صاف کیا جانے لگا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اٹک والوں نے جو پیار اور محبت مجھے دی‘ میں اُسے کبھی نہیں بھول سکتا‘‘ البتہ یہ میری دوسری ترجیح ہو گا کیونکہ میری پہلی ترجیح سپریم کورٹ کی محبت ہے جسے میں بھولنا تو چاہتا ہوں لیکن یہ ہر وقت میرے سر پر سوار رہتی ہے حالانکہ اس پر سے پھلسنے کا خطرہ ہر وقت موجود ہوتا ہے اس لیے اُسے چاہیے کہ ذرا اپنا خیال رکھے۔ آپ اگلے روز پنجاب ہائوس میں اٹک سے مقامی رہنما سلیم شہزاد سے ملاقات کر رہے تھے۔
عوام جھوٹوں کے آئی جی عمران خاں اور لٹیرے
زرداری کو ووٹ نہ دیں : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''عوام جھوٹوں کے آئی جی عمران خاں‘ اور لٹیرے زرداری کو ووٹ نہ دیں‘‘ کیونکہ اگر انہوں نے جھوٹوں اور لٹیروں ہی کو ووٹ دینے ہیں تو ہم میں کون سے کیڑے پڑے ہوئے ہیں بلکہ ہماری کارکردگی اُن سے کہیں بہتر ہے کیونکہ ترقی کی ساری کارگزاری محض اشتہارات کی مرہون منت ہے جو ایک مُنہ بولتا ثبوت ہے کہ یہ کام پوری ہنرمندی ہی سے کیا جا سکتا ہے جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جھوٹ بولنے والے صرف الزام تراشی اور لغو زبان استعمال کرتے ہیں‘‘ اور اگر زرداری صاحب کی طرف سے ساری اُمیدیں ٹوٹ گئیں تو پھر بتایا جائے گا کہ شائستہ زبان کیا ہوتی ہے بلکہ سابقہ سارے ریکارڈز بھی توڑ دیئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ'' زرداری صاحب خود ہی لوٹی دولت واپس لے آئیں ورنہ ہم لائیں گے‘‘ بلکہ ہمیں بھی اب اپنی جمع پونجی خود ہی لانا پڑے گی جو کہ دوسرے ملکوں میں نقد اور اثاثوں کی صورت میں امانتاً رکھی ہوئی ہے۔ آپ اگلے روز ملتان کے دورے کے دوران صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
نون لیگ کی عدلیہ پر تنقید کی کوئی حکمت عملی نہیں : دانیال عزیز
وفاقی وزیر برائے نجکاری دانیال عزیز نے کہا ہے کہ ''نون لیگ کی عدلیہ پر تنقید کی کوئی حکمت عملی نہیں‘‘ کیونکہ ایسے نیک کاموں کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی خاطر وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ایسا کام اللہ کا نام لے کر ویسے ہی شروع کر دیا جاتا ہے جبکہ نیک کام میں ویسے بھی دیر کرنے کا حکم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہماری حکمت عملی ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے‘‘ اور ہماری ترقی میں روز بروز اضافہ بھی ہو رہا تھا لیکن عدلیہ نے ساری ترقی ہی روک دی ہے بلکہ لینے کے دینے پڑ گئے ہیں اور ہمارے قائد نے بالکل صحیح کہا ہے کہ اُن کی نااہلی سے ترقی بالکل ہی رُک گئی ہے بلکہ اس ترقی کی واپسی کے خدشات بھی روز بروز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پہلے دن سے تماشے لگائے جا رہے ہیں‘‘ حالانکہ ہم اپنے طور پر ہی ٹھیک ٹھاک تماشا لگا رہے تھے لیکن ہمارا چلتا ہوا تماشا بند کر کے اپنا تماشا شروع کر دیا گیا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک تھے۔
تبدیلی کے نعرے لگانے والے درختوں کے پیسے کھا گئے : عائشہ گلالئی
رُکن قومی اسمبلی عائشہ گلالئی نے کہا ہے کہ ''تبدیلی کا نعرہ لگانے والے درختوں کے پیسے کھا گئے‘‘ اور میرے سامنے کھائے ہیں اور میں نے جب پوچھا کہ کیا کھا رہے ہو تو بولے کہ درختوں کے پیسے کھا رہا ہوں‘ میں نے کہا کہ کھاتے ہی چلے جا رہے ہو اور مجھ سے کوئی بات ہی نہیں کرتے‘ جس کے بعد انہوں نے جھوٹے دعوے کرنا شروع کر دیئے۔ انہوں نے کہا کہ ''پنجاب کے عوام خوش قسمت ہیں کہ اُنہیں ایکشن لینے والا وزیراعلیٰ ملا‘‘ چنانچہ اُمید ہے کہ وہ میرا یہ بیان ضرور پڑھیں گے اور میرے بارے کچھ سوچ بچار بھی کریں گے‘ اگرچہ ایسے کاموں میں وہ سوچ بچار کر کے اپنا وقت ضائع نہیں کرتے اور ہمیشہ عملی اہتمام کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''نون لیگ سے پیسے لینے کا الزام غلط ہے‘‘ کیونکہ عمران خان کے خلاف بیانات محض فی سبیل اللہ دے رہی ہوں جبکہ وزیراعلیٰ سے صرف نظرکرم کی طلب گار ہوں اور اُمید کرتی ہوں کہ وہ اپنی درخشندہ روایات کی ضرور پاسداری کریں گے۔ آپ اگلے روز ڈیرہ غازی خاں میں صحافیوں سے گفتگو کر رہی تھیں۔
اور‘ اب کراچی سے ممتاز اور سینئر شاعر صابر ظفر کے مجموعہ ''غزل نے کہا‘‘ میں سے چند اشعار :
گزر سکوں گا نہ تجھ سے‘ ہر ایک پل نے کہا
یہ زندگی ہے کوئی زندگی‘ اجل نے کہا
اِدھر اُدھر تُو عبث روشنی تلاش کرے
کہ دل ہے نور تیرہ زُہرہ و زحل نے کہا
اُسے بھی یاد رکھو جس کو صبر کہتے ہیں
میں اتنا سہل نہیں‘ مشکلوں کے حل نے کہا
سوائے عشق نہیں ہے کوئی بھی آزادی
اگرچہ یہ بھی ہے قید ابد‘ ازل نے کہا
تُم ایک دُوجے سے بانٹو بدن کی پورائی
میں تھوڑی دیر میں آ جائوں گی‘ اجل نے کہا
یہ وہ غزل ہے کہ محشر ہی جس کا مقطع ہے
اسی کا نور ہے سب مطلع ٔازل نے کہا
بیان بھی جو کرے روتے روتے مر جائے
وقیع غم کا وقوعہ ہے‘ماحصل نے کہا
مرے کہے سے اگر رُک سکے کہیں پانی
تو رکھوں باندھ کے آب رواں کنول کی طرح
جہاد نفس کشی ہے نجانے کیوں موقوف
امیر لشکر ِآمادۂ اجل نے کہا
آج کا مقطع
موجِ ہوس اُبھر کے وہیں رہ گئی ظفرؔ
دیوار ِدوستی تھی مرے اُس کے درمیاں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں