سادہ دل مولوی
رات کو ایک چور مولوی صاحب کے کمرے میں واردات کی خاطر داخل ہوا تو مولوی صاحب جاگ رہے تھے۔ مولوی صاحب نے‘ جو خاصے تگڑے تھے، چور کو قابو کر لیا اور اسے پکڑ کر تھانے کی طرف چل دیئے۔ دورانِ راہ چور بولا:''مولوی صاحب میرے جوتے آپ کے کمرے میں رہ گئے ہیں، اجازت ہو تو جا کر لے آئوں؟‘‘ ''کیوں نہیں‘ ضرور لے آئو‘‘ مولوی صاحب نے کہا۔
کوئی آٹھ دس روز بعد وہی چور مولوی صاحب کے کمرے میں گھسا تو وہ پھر جاگ رہے تھے، انہوں نے چور کو دبوچا اور تھانے کی طرف چل دیئے، راستے میں چور نے کہا:
''مولوی صاحب آپ کے کمرے میں میری جرابیں رہ گئی ہیں، اجازت ہو تو جا کر لے آئوں‘‘ تم بہت دغا باز آدمی ہو، پہلے بھی تم مجھے چکر دے گئے تھے، اب میں تمہارا اعتبار نہیں کروں گا، تم یہیں ٹھہرو میں لے کر آتا ہوں، مولوی صاحب نے جواب دیا۔
ضروری اعلان
مولوی صاحب نے اپنی دوست کو رات بارہ بجے کا وقت دے رکھا تھا وہ جب نہ آئی تو 12 بج کر دس منٹ پر انہوں نے مسجد میں جا کر مائیک کھولا اور بولے ''خواتین حضرات! ایک ضروری اعلان سماعت فرمائیے، رات کے بارہ بج چکے ہیں، اعلان ختم ہوا‘‘
چالاک سکھ اور پٹھان مولوی
مولوی صاحب اور ایک سکھ کسی ریستوران میں آمنے سامنے بیٹھے تھے کہ سکھ بولا
''مولوی صاحب میں بتائوں کہ تمہارے دل میں کیا ہے‘‘
خوچہ! تم کیسے بتا سکتا ہے؟ مولوی صاحب بولے، بتا سکتا ہے ، سکھ بولا: شرط لگا لو؛ چنانچہ دس دس ہزار کی شرط لگ گئی اور دونوں نے پیسے نکال کر میز پر رکھ دیئے، مولوی صاحب نے کہا: بتائو!
''تمہارے دل میں اللہ اور رسول کا محبت ہے‘‘، سکھ بولا۔
یہ سن کر مولوی صاحب پریشان ہو گئے کہ اگر انکار کروں تو کافر ہو جائوں گا، پھر انہوں نے سوچا کہ میں نے ابھی پیسے واپس جیت ہی لینے ہیں، بولے ''اٹھا لو‘‘ اب میں پوچھوں؟
''پہلے دس ہزار نکال کر میز پر رکھو‘‘، سکھ نے کہا، اور بولا ''اب تم پوچھو‘‘
خوچہ! تمہارے دل میں گرو گوبند سنگھ کا محبت ہے،
میں کسی گرو گوبند سنگھ کو نہیں جانتا، اور میز سے پیسے اٹھا لئے۔
اتوار لطیفوں کا دن تھا، ابھی اتنا ہی لکھا تھا کہ پروفیسر امجد علی شاکر کا فون آیا، کتاب پر ملنے والے ایوارڈ کی تاخیر سے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا فون نمبر میرے پاس نہیں تھا اور اب اپنی ایک بیٹی سے بات کر لیں۔ یہ ہمارے بہت ہی پیارے دوست کامریڈ عبدالسلام کی بیٹی تھیں۔ بتایا کہ میں اوکاڑہ سے جی پی ایس چھوڑ کر یہاں لاہور آ گئی ہوں اور شاکر صاحب میرے ہسبنڈ ہیں۔ بس کچھ نہ پوچھیے، یہ سننا تھا کہ میرے ذہن میں گویا ایک فلم سی چل پڑی۔ اوکاڑہ میں ہمارے ہفتہ وار ادبی اجلاسوں کی رونق کامریڈ ہی ہوا کرتے تھے جو میونسپل ہال میں منعقد ہوا کرتا۔ کامریڈ اوکاڑہ میں ایک انگریزی اخبار کے نامہ نگار بھی تھے۔ ان دنوں لطیف الفت بھی بسلسلہ ملازمت گورنمنٹ کالج اوکاڑہ میں تھے۔ وہ بھی اجلاسوں میں باقاعدہ شامل ہوتے، کسی بھی پیش کی گئی چیز پر پہلے کامریڈ مارکسی نقطۂ نظر کا حوالہ دیتے ہوئے اس پر تنقید کا آغاز کرتے۔ کچھ عرصے بعد صابر لودھی بھی اسی کالج میں آگئے اور ہماری ادبی رونق میں مزید اضافہ ہو گیا۔
میری پہلی تخلیق ''خوشبو دار لڑکی‘‘ کے عنوان سے افسانہ تھا جو وہاں کے ایک مقامی اخبار ''پاک پنجاب‘‘ میں شائع ہوا جو وہاں سے ادیب اور صحافی مرزا بشیر محمد منشی فاضل نکالتے تھے۔ جو حضرات میرے تعارف میں شاعر، نقاد، کالم نویس اور پتا نہیں کیا کیا لکھ دیتے ہیں ان سے درخواست ہے کہ براہ کرم میرے القابات میں افسانہ نگار کا اضافہ بھی کر لیں، پیشگی شکریہ۔ اس کے علاوہ ہماری دلچسپیوں کا مرکز پریس کلب اوکاڑہ تھا جس کی خوبصورت عمارت وہاں کے سینئر صحافی منیر چوہدری کی سرتوڑ محنت کے بعد معرضِ وجود میں آئی تھی۔ میں نے پریس کلب کے عہدے کا الیکشن بھی لڑا تھا۔ میرے مقابلے میں مرزا بشیر محمد تھے۔ بڑا کانٹے دار مقابلہ تھا‘ جس کی مانیٹرنگ رانا اکرام ربانی کر رہے تھے۔ میں وہ الیکشن چند ووٹوں سے ہار گیا تھا، البتہ اس کے بعد دوبارہ بلامقابلہ صدر منتخب ہوا۔
اور اب حسبِ معمول خانہ پری کے طور پر یہ تازہ غزل:
طرف جو اطراف کے علاوہ نکل رہی ہے
ہمارے نزدیک و دور ہر شے بدل رہی ہے
سفر یہ ایسا ہے‘ کوئی منزل نہیں کسی کی
کہ میں اکیلا نہیں ہوا مرے ساتھ چل رہی ہے
میں ناامید‘ خود کو سمیٹتا ہوں‘ لیکن
یہ کب کی بکھری ہوئی طبیعت مچل رہی ہے
اسے بھی کچھ راس ہی نہیں آئی ہے یہ پستی
زمین جو آسماں کی جانب اچھل رہی ہے
ہوا کو روکا ہوا ہے میں نے جو سامنے سے
تو یہ مرے دائیں بائیں سے کیوں پھسل رہی ہے
ہے طبع کو ڈھالنے کا میرا الگ طریقہ
مگر یہ اک دوسرے ہی سانچے میں ڈھل رہی ہے
نہ بیج ڈالا ہے اور نہ آب و ہوا موافق
مگر کوئی بیل اندر اندر ہی پل رہی ہے
شعر جھٹپٹا رہے گا ہی‘ دل میں جب تک
تری محبت کی موم بتی سی جل رہی ہے
ظفرؔ یہ عشق ہے ایک بے وقت کی مصیبت
جو اُس کے روکے نہ میرے کہنے سے ٹل رہی ہے
آج کا مقطع
چمن سے جا بھی چکا ہوں‘ ظفرؔ‘ مگر اب تک
خراجِ نالہ و نغمہ سرائی دے رہا ہوں