"ZIC" (space) message & send to 7575

ہارون الرشید اور کالم کا مطلع

ایسا لگتا ہے کہ اس اخبار کا سارا بوجھ حضرات نذیر ناجی اور ہارون الرشید نے اپنے بزرگ کاندھوں پر اٹھا رکھا ہے اور اسی طرح شانہ بشانہ چلتا بھی رہے گا۔ ہارون الرشید صاحب سے میری پہلی اور اب تک کی آخری ملاقات کوئی رُبع صدی پہلے ہوئی تھی جب وہ آفتاب اقبال سے ملنے غریب خانے پر تشریف لائے تھے۔ میرا شعری مجموعہ ''غبار آلود سمتوں کا سراغ‘‘ جو انہی دنوں شائع ہوا تھا‘ میں نے انہیں پیش کیا تھا‘ اس کے بعد مختلف اخبارات میں ہم لکھتے رہے اور ملاقات نہ ہو سکی۔
ہارون صاحب کا کالم اخبار میں سب سے پہلا کالم ہوتا ہے‘ اس لیے وضعدار قاری سب سے پہلے اُنہی کے کالم سے فیضاب ہوتا ہے،ہارون صاحب کے کالم کے پہلے دو تین جملے مطلع کے طور پر ہوتے ہیں‘ جنہیں وہ کالم کے آخر پر دُہراتے ہیں یعنی کالم کی غزل مطلع سے شروع کر کے مقطع کی بجائے مطلع پر ہی ختم کرتے ہیں۔ ان کے کالم میں دیگر خوبیوں کے علاوہ بالعموم تاریخ اسلام سے حوالے بھی ہوتے ہیں اس لیے ان کا کالم پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محمد اظہار الحق کی غزل پڑھ رہے ہیں جو شروع لازمی طور پر مطلع ہی سے ہوتی ہے‘ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ محمد اظہار الحق کی غزل پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہارون الرشید کا کالم پڑھ رہے ہیں۔
موصوف اپنے کالم میں بر محل اشعار بھی نقل کرتے ہیں جن میں کبھی کبھار کوئی شعر بے وزنی کا بھی شکار ہوتا ہے۔ میرا چونکہ یہ اپنا محکمہ ہے اس لیے کالم میں استعمال کئے گئے شعر وہ جس کالم نگار کے بھی ہوں‘ میری چھلنی سے بھی گزرتے ہیں۔ ایک دو بار تو میں نے کالم میں لکھ کر بے وزن شعر کی نشاندہی کی‘ پھر یہ سلسلہ بند کر دیا کہ کہیں وہ بُرا ہی نہ مان رہے ہوں۔ تاہم‘ اگلے روز پھر ایسا ہی ہوا تو میں نے انہیں فون پر یہ کہتے ہوئے آگاہ کیا کہ یہ گسُتاخی کر رہا ہوں۔ لیکن انہوں نے خوشدلی سے کہا کہ نہیں‘ نہیں‘ یہ کوئی گستاخی نہیں بلکہ یہ کام کرتے رہیں کہ اس سے اصلاح کا پہلو نکلتا ہے۔ وزن کا معاملہ یہ ہے کہ اگر آپ شعر پسند کرتے ہوں یا اسے اپنی تحریر میں سجاوٹ کے طور پر استعمال بھی کرتے ہوں تو یہ ضروری نہیں کہ آپ کو فاعلات '‘و فاعلات پر بھی عبور حاصل ہو‘ اور اگر نہیں تو اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ شعر سے ناتا ہی توڑ لیں۔ شعر کا وزن ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور بڑے بڑوں کو اس میں مار کھاتے دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے بھائی ضیاء محی الدین جو تحت اللفظ شعر پڑھنے میں اپنا ایک مقام اور تجربہ رکھتے ہیں‘ ان گنہگار آنکھوں اور کانوں نے ایک بار انہیں فیض کا شعر بے وزن پڑھتے دیکھا اور سُنا ہے۔
فیض صاحب کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مرحوم اپنے کلام پر صوفی تبسم سے اصلاح لیا کرتے یا ایک بار اُنہیں دکھا ضرور لیا کرتے تھے کہ صوفی صاحب تو جگت اُستاد تھے ہی۔ جب اُن کا انتقال ہوا تو کہا جاتا ہے کہ فیض کے کلام میں وزن کی کمزوریاں سر اٹھانے لگی تھیں‘ واللہ اعلم بالصواب‘ میں جو اس معاملے میں بڑا تیس مار خاں بنتا ہوں‘ وزن کی غلطی اب بھی کر جاتا ہوں بلکہ اس کی ایک مثال بھی اگلے روز کالم میں پیش کر چکا ہوں جس کی وجہ محض تساہل ہے یا شاید ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی بھی۔ ایک پرانے لطیفے کے مطابق ایک جاٹ اور تیلی کہیں جا رہے تھے کہ تیلی کو شرارت سوجھی اور وہ بولا :
جاٹ رے جاٹ تیرے سر پہ کھاٹ
جس کے جواب میں جاٹ نے کہا :
تیلی رے تیلی تیرے سر پر کولہو
اس پر تیلی نے کہا کہ اس کا تو قافیہ ہی نہیں ملتا جس کے جواب میں جاٹ بولا‘ قافیہ ملے نہ ملے۔ کولہو کے وزن سے تمہاری طبیعت تو صاف ہو گئی ہے۔
ہارون صاحب کا کالم جس ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے‘ اسی طرح ان کے درج کئے گئے اشعار سے بھی لوگ لطف اندوز ہوتے ہیں اور چونکہ ایک عام قاری بلکہ کئی خاص قاری بھی وزن سے نابلد ہوتے ہیں اس لیے وہ اس شعر کا بھی لطف برابر اُٹھاتے ہیں جس میں وزن کی غلطی ہو یا کوئی لفظ چھُوٹ یا آگے پیچھے ہو گیا ہو۔ تاہم جو قاری شعر کے وزن سے واقف ہوں‘ وہ بے مزہ ضرور ہوتے ہوں گے اور انہیں اس کا حق بھی حاصل ہے‘ بلکہ ایک ذہین قاری غلط یا بے وزن شعر کو خود بھی ٹھیک کر لیتا ہے۔ اس لیے موصوف سے یہ تو مطالبہ نہیں کیا جا سکتا کہ فاعلات '‘و فاعلات کے فن میں بھی مہارت حاصل کریں کہ اب بقول شخصے‘ آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے‘ اس لیے پوری فراخدلی کے ساتھ کالم کو اشعار سے سجایا کریں اور جسے شعر بے وزن محسوس ہو‘ اس کے سر پہ کولہو!
اصولی طور پر مجھے ہارون صاحب کے کالم کی دل کھول کر تعریف بھی کرنی چاہیے تھی لیکن سچ پوچھیں تو مجبوری یہ ہے کہ ایک کالم نگار دوسرے کالم نگار کی تعریف کیسے کر سکتا ہے کہ اتنا کمینہ ہونا تو ہر کالم نویس کا حق بھی ہے اور میں حق کے استعمال میں کبھی بخل سے کام نہیں لیتا اور پھر یہ کہ اگر کوئی کالم بطور خاص پڑھا جاتا ہو تو اس کی تعریف ویسے ہی فضول لگے گی کیونکہ کالم تو کالم ہوتا ہے‘ اپنے موضوع سے بھی‘ اور تعریف سے بھی بے نیاز۔ مجید نظامی صاحب کہا کرتے تھے کہ کالم تو وہ ہوتا ہے جو کسی موضوع کے بغیر لکھا جائے۔ بہرحال ہارون صاحب وزن کو زیادہ اہمیت نہ دیں اور نہ ہی یہ کوئی فکر مندی کی بات ہے‘ اور شعر سے ناتا نہ توڑیں ع
تُو مشق ناز کر خونِ دو عالم میری گردن پر
آج کا مقطع
سُنتے ہو ظفرؔ سے جو محبت کا وقوعہ
گزرا ہے کہیں اور‘ بیاں اُس نے کیا ہے

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں