"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں‘ متن اور کراچی سے خوبصورت شاعری

جمہوریت‘ آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے
کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائیگا : نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''جمہوریت‘ آئین اور قانون کی حکمرانی کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا‘‘ کیونکہ جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ میرے بعد میرے خاندان ہی کا کوئی فرد میری جگہ لے سکتا ہے چاہے وہ اہلیہ ہی کیوں نہ ہوں اور جہاں تک آئین اور قانون کی حکمرانی کا تعلق ہے تو اس کی حکمرانی کا حق یہ خاکسار ادا کر چکا ہے اور اگر کوئی کسر رہ گئی ہے تو وہ پارلیمنٹ کے ذریعے پوری کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی جبکہ دما دم مست قلندر اس کے علاوہ ہو گا ۔انہوں نے کہا کہ ''ہمارا دامن صاف ہے‘ کسی سے خوفزدہ نہیں ہوں گے‘‘ کیونکہ اس دامن کو واشنگ پائوڈر سے ہر روز تین تین دفعہ دھویا جاتا ہے اور اگر پھر بھی کوئی داغ دھبہ رہ جائے تو یہ واشنگ پائوڈر کا قصور ہے‘ ہمارے دامن کی نہیں اور ڈرتے اس لیے نہیں ہیں کہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہونے والا ہے اب ڈرنے سے بھی کوئی فرق نہ پڑے گا۔ آپ اگلے روز جاتی امرا میں اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
نوازشریف نے ووٹ کے تقدس کی بات کر کے
سب کو آپس میں جوڑ دیا ہے : مریم اورنگزیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''نوازشریف نے ووٹ کے تقدس کی بات کر کے سب کو آپس میں جوڑ دیا ہے‘‘ اور تقدس کی طرف بات ہی کی ہے ورنہ عوام اب اچھی طرح سے سمجھ گئے ہیں کہ ووٹ حاصل کر کے جو کچھ وہ کرتے ہیں اُسی کو ووٹ کا تقدس سمجھتے ہیں اور ووٹ کا اتنا تقدس اب ووٹرز کی برداشت سے باہر ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ججز کا پی سی او پر حلف لینا غلطی نہیں‘ گناہ تھا‘‘ چنانچہ ان کے فیصلوں کو کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''آئندہ 700 برس تک مقدمہ لڑتے رہیں گے‘‘ کیونکہ فیصلے بھی زیادہ سے زیادہ 70 سال کے لیے ہی ہوں گے اس لیے اس دوران بے جگری سے یہ مقدمہ لڑتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''وقت آ گیا ہے کہ تعلیمی اداروں میں جمہوریت کا سبق پڑھایا جائے‘‘ جس کے لیے میاں صاحب کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں کیونکہ جمہوریت کا ان سے بڑا علمبردار کون ہو گا۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی میں خطاب کر رہی تھیں۔
سیاستدانوں کو عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے : فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''سیاستدانوں کو عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے‘ پھر ججوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جائے گا‘‘ جبکہ سیاستدان ایک بخشی ہوئی روح ہوتا ہے جس کے کسی قول وفعل کو عدالتوں میں نہیں لے جایا جا سکتا اور یہ روایت روز اول سے قائم ہے جس سے روگردانی نہیں کی جا سکتی اور تاریخ بتاتی ہے کہ آج تک کسی عدالت نے نوازشریف کے خلاف فیصلہ نہیں دیا‘ لیکن اب اس سنہری روایت سے روگردانی کی جا رہی ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ کل کلاں خاکسار جیسوں کی بھی باری آ سکتی ہے۔ تاہم عرض کرنے کا مقصد جج حضرات کو پیشگی آگاہ کرنا بھی تھا ۔ع
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
آپ اگلے روز پشاور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
نوازشریف نے سپریم کورٹ کے خلاف کوئی بات نہیں کی : سعد رفیق
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''نوازشریف نے سپریم کورٹ کے خلاف کوئی بات نہیں کی‘‘ کیونکہ جس پر اُنہوں نے حملہ کروا دیا تھا‘ اس کے خلاف صرف بات کرنے کی کیا ضرورت ہے اور اب جس کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ گھی سیدھی انگلیوں سے نکلنے والا نہیں ہے البتہ اُن کے مخاطب صرف جج صاحبان ہیں اور اب تو ماشاء اللہ یہ فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے کہ جتنا سخت فیصلہ آئے گا اس کا جواب بھی اتنا ہی سخت دیا جائے گا ع پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی‘ اور یہ اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ حکومت ہماری ہے اور ہم بوقت ضرورت کچھ بھی کر سکتے ہیں جبکہ وزیراعظم کو بھی اسی قطار میں شامل کر دیا ہے جو اب تک خاصے ہومیوپیتھک چلے آ رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''عدلیہ اور پارلیمنٹ میں جنگ نہیں ہو گی‘‘ کیونکہ جو کچھ بھی ہو گا‘ ہم اُسے جنگ قرار ہی نہیں دیں گے تو یہ جنگ کیسے کہی جا سکتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب کراچی سے خوبصورت شاعری کے کچھ نمونے :
خسارے ہی خسارے میں ہوئی تھی
محبت استعارے میں ہوئی تھی
اور‘ اس کے بعد سب کچھ بہہ گیا تھا
بس اک جنبش کنارے میں ہوئی تھی
مجھے پیکر میں جب لایا گیا تھا
نموداری ستارے میں ہوئی تھی
خدا سے میری پہلی گفتگو بھی
سراسر تیرے بارے میں ہوئی تھی
ایک ہی خواب تھا سو‘ اُس سے بھی
دست بردار کر دیئے گئے ہیں 
(شبیر نازش)
رکھی ہیں دل سے لگا کر وہ چٹھیاں میں نے
نہیں بھلائیں تری مہربانیاں میں نے
شعور عشق تھا بچپن سے رہنما میرا
کہ تیرے نام کی لکھی ہیں تختیاں میں نے
یہ تُو کہ جس نے کہیں کھودیا مرا دل‘ اور
تری سنبھال کے رکھی ہیں چوڑیاں میں نے
پلٹ پلٹ کے سمندر بھی دیکھتا تھا مجھے
بھنور بھنور جو اُتاری تھیں کشتیاں میں نے
نصیب میں نہیں تھی تیرے لمس کی گرمی
نجانے کیسے گزاری ہیں سردیاں میں نے
کچھ اور حبس بڑھا‘ اور ہوئی گھٹن شاعر
ہوا کے واسطے کھولی تھیں کھڑکیاں میں نے 
(شاعر علی شاعر)
آج کا مقطع
ہوں اس کا سب سے زیادہ نیاز مند‘ ظفرؔ
جو شہر میں مرا سب سے بڑا مخالف ہے
نوٹ: میرا نیا پوسٹل ایڈریس یہ ہے: مڈ لینڈ فارم ہائوسز‘ ہیئر‘ بیدیاں روڈ لاہور۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں