"ZIC" (space) message & send to 7575

جسٹس (ر) میاں سعید الرحمن فرخ اور ان کی نعت

فردوسِ بریں ہے کہ مدینے کی گلی ہے
اُس شہرِ پُرانوار کا ہر شخص ولی ہے
اپنوں سے محبت ہے تو غیروں سے مرّوت
یہ رسمِ دلآویز مدینے سے چلی ہے
سرمایۂ ہستی ہے فقط ذکرِ مدینہ
باقی جو ہے دُنیا میں وہ آشفتہ سری ہے
کونین کا ہر ذّرہ ہے محتاج اسی کا
رحمت کی گھٹا جُھوم کے طیبہ سے اُٹھی ہے
سرکار کی رحمت کا یہ اعجاز ہے فرخؔ
بگڑی جو بنی ہے تو مدینے میں بنی ہے
یہ نعتِ رسول مقبول کہنے کی سعادت ہمارے دیرینہ دوست اور کرم فرما جسٹس (ر) میاں سعید الرحمن فرخ کو حاصل ہوئی ہے جسے یہاں درج کر کے اس ثواب میں‘ میںبھی شامل ہو گیا ہوں‘ جزاک اللہ۔ آپ چند ماہ تک ہیپاٹائٹس جیسے موذی مرض میں مبتلا رہنے کے بعد اب ماشاء اللہ صحت یاب ہوئے ہیں۔ میں نے اُن دنوں ان کی مکمل اور جلد صحت یابی کے لئے قارئین سے دعا کی اپیل بھی کی تھی جو الحمدللہ مقبول ہوئی اور اظہار تشکر کے طور پر یہ نعت تخلیق فرمائی۔
مجھے یاد ہے کہ لاہور ہائیکورٹ ہی کے ایک جج محمد الیاس صاحب نہ صرف شاعر بلکہ صاحب کتاب بھی تھے۔ میرے ساتھ اکثر رابطہ رکھتے تھے۔ نعت رسول اُن کی شاعری کا بھی ایک اہم حصہ تھی۔ اب میاں سعید الرحمن فرخ ہی سے معلوم ہوا ہے کہ ایک عرصے سے صاحب فراش ہیں۔ ان کے لیے بھی دعائے صحت کی اپیل ہے۔ پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ میاں صاحب کا تعلق بھی ساہیوال سے ہے‘ جب اوکاڑہ اسی ضلع کی ایک تحصیل ہوا کرتا تھا۔ موصوف وہاں پریکٹس کرتے تھے جہاں اپیلوں وغیرہ کے سلسلے میں میرا آنا جانا بھی رہتا‘ بلکہ اس سے بھی پہلے میں چھ ماہ کے لیے ساہیوال میں مقیم بھی رہا جہاں میں نے قاعدے کے مطابق وہاں کے سینئر ایڈووکیٹ چوہدری نذیر احمد کرنالوی سے ٹریننگ حاصل کی۔ وہاں میاں صاحب سے گپ شپ کا موقعہ اکثر ملتا۔ وہ نہ صرف صاحب ِتخلص تھے بلکہ گاہے ماہے شعر بھی کہتے۔
انہی کی وجہ سے ان کے چھوٹے بھائی میاں حفیظ الرحمن کے ساتھ بھی دوستانہ ہوا جو ٹینس کے باقاعدہ کھلاڑی ہیں‘ بلکہ کرکٹ وغیرہ میں بھی ان کی دلچسپی بلکہ مہارت کی وجہ سے میں اپنے کالم میں ان سے مدد بھی لیا کرتا‘ حتیٰ کہ بعض کالم تو سارے کے سارے انہی کے لکھے ہوئے ہوتے تھے۔ 77ء کی تحریک میں گرفتار ہو کر ساہیوال جیل کو رونق بخشی اور جس دوران میں بوجہ علالت داخل ہسپتال بھی رہا جہاں میاں حفیظ باقاعدگی سے چکر لگاتے۔ بہت اچھے فوٹو گرافر بھی ہیں اور اس زمانے کی کئی یادگار تصاویر انہی کے ہنر کی مرہون منت ہیں۔
ان کے والد (مرحوم) چوہدری عبدالرحمن کی شہر میں وسیع و عریض کوٹھی میں جانے کا بھی کئی بار موقعہ ملا جو کئی ایکڑ پر مشتمل اور شہر کے اندر تھی اور ان میں پھلدار درخت بکثرت موجود تھے۔ چوہدری صاحب بہت شفقت سے پیش آتے‘ اور شہر میں کبھی کوئی مشاعرے کی تقریب ہوتی اور اس میں میری شمولیت کا انہیں پتا چلتا تو ضرور تشریف لاتے۔ آپ محکمہ بچت کے ریٹائرڈ افسر تھے۔ تعلق ہماری برادری ہی سے تھا۔ سو‘ وہاں ہمارے بزرگ میاں عبدالحق کے ہاں بھی جب ان کی تشریف آوری ہوتی تو میرے ساتھ بھی گپ شپ لگاتے۔
ہمارے ایک اور نہایت قریبی دوست میاں محمد صدیق کامیانہ نے بھی وہیں ہمارے ساتھ پریکٹس شروع کر رکھی تھی اور دوستی کی یہ تکون بڑے زوروں پر رہی۔ مجید امجد بھی حیات تھے جو وہاں سے ڈسٹرکٹ فوڈ آفیسر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے تھے۔ ان سے اور منیر نیازی سے بھی ملاقاتیں رہیں۔ بلکہ ان دنوں ہمارے نذیر ناجی اور سید اسرار زیدی بھی وہیں مقیم تھے۔ زیدی صاحب وہاں ایک مقامی روزنامہ ''خدمت‘‘ کے ایڈیٹر بھی تھے جہاں میری اور ناجی صاحب کی غزلیں اور فکاہی مضامین شائع ہوتے رہے۔ پھر میاں صاحب ہائیکورٹ آ گئے‘ جج بنے‘ ریٹائر ہوئے اور یہاں کینال کالونی میں ان سے ملاقاتیں بھی تجدید ہوئیں جہاں میں عموماً ساہیوال ہی کے ایک اور دوست اشرف قدسی کے ہمراہ جایا کرتا۔ افسوس کہ پچھلے سال ان کا انتقال ہو گیا۔ آپ ٹھیک ٹھاک شاعر تھے اور ساہیوال کے شعراء کی غزلوں کے ایک انتخاب ''شہر غزل‘‘ کے مرتب بھی تھے۔ کتابوں کے اتنے رسیا کہ ایک بہت بڑی لائبریری ان کو زیب دے رہی تھی۔ لاہور آ کر علامہ اقبال ٹائون میں ایک گھر بھی بنا لیا تھا۔ ان کے انتقال کی خبر بھی مجھے میاں صاحب ہی کے ذریعے ملی ع
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
ان کا ایک لطیفہ یہ بھی ہے کہ مدینہ شریف گئے تو وہاں سے ڈھیر ساری کتابیں خرید لیں۔ ائیرپورٹ پر چیکنگ ہوئی تو جتنے وزن کی اجازت تھی اس سے تقریباً دگنا تھا۔ اعتراض ہوا تو بولے کتابیں ہی ہیں‘ اگر آپ چاہیں تو ضبط کر لیں۔ اس پر انہوں نے اجازت دے دی۔
میاں صاحب نے بتایا کہ دوبارہ مدینہ جانے کی سعادت حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ دیکھیں بلاوا کب آتا ہے۔ بلاوا واقعی بہت ضروری ہے۔ کئی سال پہلے جدہ میں ایک مشاعرے میں شرکت کی دعوت ملی جہاں میرے ایک عزیز قاضی رضوان الحق سفارت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ وہاں ایک شام کسی ریستوران میں بیٹھے تھے کہ وہاں کچھ مقامی رسالے بھی میز پر پڑے تھے۔ ان میں سے ایک میں میری ایک نعت بھی چھپی ہوئی تھی جو یہاں کے کسی رسالے سے لی گئی تھی۔ وہیں پر دوستوں نے مجھے بتایا کہ یہاں چھپنے والی یہ نعت ہی آپ کے لیے بلاوا تھی! اور اسی کے طفیل مجھے وہاں عمرہ کی سعادت بھی حاصل ہوئی ع
یہ رُتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
آج کا مقطع
ہر وقت ظفر ٹوٹتے رہتے ہیں جو مجھ میں 
ہو سکتے ہیں ایسے بھی کہاں اور ستارے

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں