وزیراعظم ڈاکو چور نہیں‘ سکھا شاہی
کے خلاف بغاوت کرنا ہو گی : نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم ڈاکو چور نہیں۔ سکھا شاہی کیخلاف بغاوت کرنا ہو گی‘‘ اور آپ کب تک یونہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے اور میں آپ کی بغاوت کے خلاف کا انتظار ہی کرتا وہاں پہنچ جائوں گا وہ جگہ آپ کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کیونکہ ایک جگہ اکٹھے ہونے اور خالی نعروں سے مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا جبکہ وزیراعظم نے نہ تو کسی پر ڈاکہ ڈالا ہے اور نہ ہی کسی کی چوری کی ہے کیونکہ کک بیکس اور اور کمیشن کو نہ چوری کہہ سکتے ہیں نہ ڈاکہ بلکہ یہ تو ایک فن ہے جسے فن شریف بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے اگر میں نے کسی کی گھڑی یا بھینس چرائی ہو تو بتایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''جتنا ظلم ہو گا عوام اتنا نون لیگ کا ساتھ دیں گے‘‘ جو اب ش لیگ بننے جا رہی ہے اس لیے صورت حال مایوس کن بھی ہو سکتی ہے۔ نیز الیکشن تک تو سارا پانسہ ہی پلٹ چکا ہو گا اور دوسرے الیکشن لڑیں گے اور ہم دور سے دیکھیں گے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نوازشریف کو ڈکٹیشن نہ لینے پر جیل بھیجنے کی تیاری ہو رہی ہے : سعد رفیق
وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''نوازشریف کو ڈکٹیشن نہ لینے پر جیل بھیجنے کی تیاری ہو رہی ہے‘‘ کیونکہ کرپشن اور منی لانڈرنگ سے روکنا عدلیہ کا کام نہیں ہے بلکہ رائے دہندگان کا ہے‘ اس لیے جونہی عوام کہیں گے یہ کام روک دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''کس کس کو نکالو گے‘ کس کس کا سر قلم ہو گا‘‘ کیونکہ اب تو خاکسار کی طرف بھی نیب کی توجہ مبذول ہو گئی ہے جبکہ میں نے تو اپنے لیڈر سے بھی زیادہ ایمانداری سے کام کیا ہے بلکہ کہیں کہیں تو اُن سے بھی زیادہ ایمانداری کر کے دکھا دی ہے جس پر وہ حیران بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''اب یہ کام بند کر دینا چاہیے‘‘ جبکہ کام کی بجائے ہمیں بند کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں حالانکہ قائد سمیت ہم کسی کا کیا لیتے ہیں اور اپنی روزی روٹی ہی کے لیے فکرمند رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''دو تہائی اکثریت سے واپس آئیں گے‘‘ بشرطیکہ وہاں سے واپس آ گئے جہاں ہمیں بھیجنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ہارس ٹریڈنگ نہیں‘ ارکان اسمبلی کو قائل
کر کے ووٹ لیے : بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''ہارس ٹریڈنگ نہیں‘ ارکان اسمبلی کو قائل کر کے ووٹ لیے‘‘ کیونکہ قائل کرنے کے جو جو طریقے والد صاحب کو آتے ہیں‘ کسی اور کو کیا آتے ہوں گے کیونکہ وہ ہر رکن اسمبلی کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر ان سے بات کرتے ہیں بعض ان کی بعض ضروریات تو ایسی ہوتی ہیں کہ خود ارکان اسمبلی کو ان کا علم نہیں ہوتا اور والد صاحب ہی انہیں ان کا احساس دلاتے ہیں اور وہ حیران و پریشان ہوتے ہوئے قائل ہو جاتے ہیں بلکہ ان کی پریشانی وغیرہ بھی ختم ہو جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''تخت لاہور نے ملک کو خطرے سے دوچار کیا‘‘ حالانکہ یہ کام ہم زیادہ زوردار طریقے سے کر سکتے ہیں‘ اس لیے ضروری ہے کہ بقیہ سعادت حاصل کرنے کا موقعہ ہمیں دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''معاشرے کا ہر فرد غیر محفوظ ہے‘‘ حالانکہ کہا یہ جاتا ہے کہ ہم نے ایس پی انوار تک کو تحفظ دے رکھا ہے۔ آپ اگلے روز ٹوبہ ٹیک سنگھ میں کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
اسٹیبلشمنٹ اور نادیدہ قوتیں جے یو آئی
ایف کی راہ میں رکاوٹیں ہیں : فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''اسٹیبلشمنٹ اور نادیدہ قوتیں جمعیت کی راہ میں رکاوٹ ہیں‘‘ حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ ہم نے اسٹیبلشمنٹ چھوڑ‘ ہر حکمران کا دریا دلی سے ساتھ دیا ہے وہ سول ہو یا فوجی‘ کیونکہ اس کے بغیر ہمارا کام ہی نہیں چلتا اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ بات اچھی طرح سے معلوم ہے اور اگر نہیں تو خاکسار اس کی یقین دہانی کرا رہا ہے جس کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''نوازشریف کے خلاف عدالتی فیصلہ عوام نے مسترد کر دیا‘‘ حالانکہ انہوں نے اپنی اور میری سمیت سب کی ضروریات کا ہمیشہ خیال رکھا ہے جبکہ اتنی تابعداری کے باوجود اسٹیبلشمنٹ پٹھے پر ہاتھ نہیں رکھنے دیتی حالانکہ اس کے پاس فنڈز کی بھرمار ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''آج مذہبی دنیا پر آزمائش ہے‘‘ بلکہ مذہبی رہنمائوں پر اس سے زیادہ آزمائش ہے جس سے انہیں نہایت آسانی سے نکالا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز رحیم یار خان میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب رسا ؔچغتائی کے چند منتخب اشعار :
موت بھی کیا عجیب نعمت ہے
عمر ساری گزار کر دیکھا
یہ بھی ممکن ہے اُدھر کوئی نہ ہو
اور ہو بس آئینہ رکھا ہوا
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو
میں اُن آنکھوں سے دُنیا دیکھتا ہوں
خدا جانے مری گٹھڑی میں کیا ہے
نہ جانے کیوں اُٹھائے پھر رہا ہوں
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسم بہار رہا
اور پھر یُوں ہُوا کہ بچوں نے
چھینا جھپٹی میں توڑ ڈالا مجھے
اس گدایا نہ زندگی سے تو
وضعدارانہ مر گئے ہوتے
وہاں اب خوابگاہیں بن گئی ہیں
اُٹھے تھے آبدیدہ ہم جہاں سے
عجب میرا قبیلہ ہے کہ جس میں
کوئی میرے قبیلے کا نہیں ہے
شرط غمگساری ہے ورنہ یوں تو سایہ بھی
دُور دُور رہتا ہے‘ ساتھ ساتھ چلتا ہے
اُس سے کہنا کہ کیا نہیں اُس پاس
پھر بھی درویش کی دُعا لے جائے
قرض ہو تو کوئی ادا کر دے
ہاتھ ہو تو کوئی چُھڑا لے جائے
آج کا مطلع
اس کی نظروں میں کچھ ایسا ہی مرا منصب تھا
مہرباں اب جو نہیں ہے تو وہ پہلے کب تھا