"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن‘ ٹوٹا اور کچھ مزید ضمیر طالب

بلاول اور عمران خان چابی والے کھلونے ہیں: نواز شریف
سابق اور نا اہل وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ بلاول اور عمران چابی والے کھلونے ہیں جبکہ میں آٹو میٹک ہوں اور اللہ کے فضل سے چابی کے بغیر ہی چل پڑا ہوں جبکہ جب سے نااہل ہوا ہوں اس وقت سے چابی کے بغیر ہی چل رہا ہوں اور کوئی مجھے بند بھی نہیں کر رہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک ہی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گئے ہیں جبکہ خاکسار نے احتیاطاً کئی بارگاہیں مقرر کر رکھی تھیں لیکن افسوس کہ عرب شہزاد گان سمیت کوئی بھی بارگاہ میری جان چھڑانے پر آمادہ نہیں ہے۔ آخر زمانے کو کیا ہو گیا ہے ؟ ہیں جی ؟ انہوں نے کہا کہ ''یہ لیڈر نہیں، شرمندگی ہیں‘‘ جبکہ بہادر آدمی کبھی شرمندہ نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ''ان کے قول و فعل میں تضاد ہے ، جبکہ خاکسار اس سے بالکل مختلف ہے کیونکہ جب مجھ پر کرپشن کا الزام لگایا تو میں نے صاف کہہ دیا تھا کہ ترقی کی خاطر کرپشن کرنی ہی پڑتی ہے۔ آپ اگلے روز ن لیگ کے جنرل کونسل اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف ہی قائد اعظم کے سیاسی وارث ہیں: شہباز شریف 
خادم اعلیٰ پنجاب اور نواز لیگ کے نومنتخب صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ نواز شریف ہی قائد اعظم کے سیاسی وارث ہیں ''اگرچہ دونوں کے کام سراسر مختلف ہیں لیکن چونکہ پہلے وہ اپنے آپ کو قائد اعظم ثانی قرار دے چکے ہیں اور کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تو اب قائد اعظم کا سیاسی وارث ہونا کون سی دور کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ ن لیگ اور پاکستان کے عوام کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں نواز شریف جیسا قائد نصیب ہوا ‘‘ لیکن اب انہی کو جیل بھیجنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں حالانکہ قائد اعظم کو اگر کسی نے جیل نہیں بھیجا تو نواز شریف کو کیسے بھیجا جا سکتا ہے جو کہ دراصل قائد اعظم کی توہین ہوگی اور ہمیں اپنے لیڈروں کی قدر شناسی کا سلیقہ ہی نہیں ہے بلکہ قائد اعظم ثانی کے چھوٹے بھائی کیخلاف بھی ایسی ہی تیاریاں ہو رہی ہیں ، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آخر اس ملک کا کیا بنے گا اور اس پر حکومت کون کرے گا۔ آپ اگلے روز ن لیگ کا صدر بننے پر جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
نگران سیٹ اپ کیلئے اتفاق نہیں ہونے دیا جائے گا: جاوید ہاشمی 
بزرگ سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''نگران سیٹ اپ کیلئے اتفاق نہیں ہونے دیا جائے گا ‘‘اور یہ میری پیشگوئی ہے کیونکہ پہلے میں سیاستدان تھا، پھر باغی ہوا اور اور اس کے بعد بزرگ سیاستدان کر دیا لیکن چونکہ آج کل میں کچھ بھی نہیں ہوں اس لئے جوتش کا پیشہ اختیار کر لیا ہے اور اپنے لئے جو میری پیشگوئی ہے وہ بیان کرنے کے قابل ہی نہیں ہے کیونکہ نواز شریف نے مجھے ترسا ترسا کر بالآخر دھتّا بتا دیا اور بہ امر مجبوری یہ پیشہ اختیار کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا '' نواز شریف کو جیل بھیجنے سے احتجاج بڑھے گا‘‘ اور بقول مریم بی بی، سینیٹ الیکشن میں شکست سے چونکہ نواز شریف کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اس لئے جیل جانے سے مزید اضافہ ہوگا اس لئے نواز لیگ کے اپنے مفاد میں ہے کہ انہیں جیل بھجوایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''عبوری حکومت میں نئی پارٹی بنائی جائے گی ‘‘ اور اس میں خاکسار بھی شامل ہوگا کیونکہ جوتش اور نجوم میں کوئی خاص مزہ نہیں آرہا۔ آپ اگلے روز ملتان میں پریس کانفرنس کر رہے تھے۔
یہ مذاق بند ہونا چاہیے
ہمارے جیل خانوں میں سیاستدانوں اور دیگر خاص طبقوں کیلئے جو اے کلاس اور بی کلاس جیسی بدعتیں اب تک چلی آ رہی ہیں، یہ سراسر امتیازی سلوک ہے اور دستور پاکستان کے سراسر خلاف ہے کیونکہ مجرم تو مجرم ہوتا ہے، سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیوں نہ کیا جائے اور شہریوں کے درمیان اس تفریق کو جاری رکھنے کا کیا جواز ہے۔ یہ ایک مذاق ہے کہ گھڑی چور کو تو بیرک میں بند کر دیا جائے اور خا ص لوگوں کو اے اور بی کلاس میں رکھا جائے جہاں انہیں گھر جیسی سہولیات حاصل ہوتی ہیں بلکہ اہل سیاست اسی پر اکتفا نہیں کرتے اور ہٹے کٹے ہونے کے باوجود جیل جاتے ہی بیمار پڑ جاتے ہیں اور کسی آرام دہ اور بہترین ہسپتال میں ان کے قیام کا انتظام کر دیا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ طبقہ جیل کی ہوا کھانے کے باوجود اپنی من مانیوں سے باز نہیں آتا کیونکہ اگر انہیں معلوم ہو کہ سزایابی کی صورت میں انہیں عام قیدیوںمیں رکھا جائے گا تو ان کا مائنڈ سیٹ تبدیل بھی ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کو اس امتیازی قانون کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔
اور اب آخر میں مانچسٹر سے ضمیر طالب کے چند اشعار:
تمہارے وصل سے یہ راز تو کھلا مجھ پر
کہ مجھ کو ہجر جو لاحق ہے وہ تمہارا نہیں
...............
تری تصویر سے وہ پوچھتا ہوں
جو باتیں تو چھپا لیتا ہے مجھ سے
...............
سبھی کا دعویٰ ہے لیکن خبر کسی کو نہیں 
کہ اس نظام کو کیسے چلایا جاتا ہے
عجیب لوگ ہیں جس کو ہنر جو آتا نہیں
یہاں وہ کام اسی سے کرایا جاتا ہے
...............
تخت پر بیٹھا ہوا ہے کوئی اور
اور حکومت کر رہا ہے کوئی اور
کوئی رستہ جدھر نہیں جاتا
ہم اسی سمت جانا چاہتے ہیں
...............
حکم سننے کے عادی ہیں یہ لوگ
یہ گزارش سنا نہیں کرتے
...............
چل پڑے گا کبھی دریا مرے ہمراہ ضمیرؔ
روز پہنچاتا ہوں میں دشت کا پیغام اُسے
...............
ضمیرؔ ایک دن میں نے پیچھے لگانا ہے اس کو
ابھی راستا میرے آگے چلا جا رہا ہے
...............
یہ جو دیوار ہے اور اس پہ ہے جو تصویر
ایک دوجے کو سنبھالے ہوئے ہیں دونوں
...............
ابھی تک خود کو میں زندہ سمجھتا ہوں
مجھے مارا گیا ہے اس مہارت سے
...............
ہیں جس کی تھی تشنگی صاحب
پانی دریا میں ایسا تھا ہی نہیں
آج کا مطلع
اوقات سے بڑھ کر کبھی چاہا بھی نہیں تھا
تم پر تو ہمارا کوئی دعویٰ بھی نہیں تھا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں