"ZIC" (space) message & send to 7575

سُرخیاں‘ متن‘ ٹوٹے اور کبیر اطہر کی شاعری

اداروں کی عزت کرتا ہوں : نوازشریف
سابق اور نااہل وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ''اداروں کی عزت کرتا ہوں‘‘ لیکن جنہیں میں ادارے سمجھتا ہی نہیں‘ ان کی عزت کیسے کر سکتا ہوں اور اگر وہ واقعی ادارے ہوتے تو اب تک میرے خلاف کارروائی کر چکے ہوتے۔اُنہوں نے کہا کہ ''اب تو سپریم کورٹ کے اندر سے بھی آوازیں آنے لگ گئیں‘‘ اگرچہ اب باہر سے آوازوں کی تو ضرورت نہیں رہی ہے‘ تاہم عادت اس قدر پختہ ہو چکی ہے کہ چپ رہ ہی نہیں سکتا‘ ویسے بھی دونوں صورتوں میں نتیجہ تو ایک ہی نکلنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاناما کیس کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے جج کے ریمارکس کوئی معمولی بات نہیں‘‘ جبکہ اس کے مقابلے میں پانچ منصفوںکے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں‘ اور اگر اس منصف کو ہاتھی سمجھ لیا جائے تو ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''فیصلے اپنے مُنہ سے خود بولتے ہیں‘‘ جبکہ نااہلی کے فیصلے نے بول بول کر کان پکا دیئے ہیں‘‘ جس کے مقابلے میں مجھے بھی الل ٹپ بولنا پڑا‘ حتیٰ کہ میری آواز ہی بیٹھ گئی ہے اور کھڑی ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ آپ اگلے روز عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
چوہدری نثار نے اپنے رویے سے مستقبل کا فیصلہ کر دیا : پرویز رشید
نواز لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''چوہدری نثار نے اپنے رویے سے مستقبل کا فیصلہ کر دیا‘‘ جبکہ ہمارے مستقبل کا فیصلہ تو پہلے ہی ہو چکا ہے اور اسی وجہ سے پرندے ایک ایک کر کے اِدھر اُدھر ہو رہے ہیں اور جونہی ریفرنسز کا فیصلہ آیا‘ پوری جماعت ہی کے مستقبل کا فیصلہ ہو جائے گا جس میں اب زیادہ وقت باقی نہیں رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''چوہدری نثار نے قائد کی پیٹھ میں چُھرا گھونپا‘‘ حالانکہ یہ بھی مرے کو مارے شاہ مدار ہی کے سلسلے کی چیز ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''چوہدری نثار مفاد پرست رہنما ہیں‘‘ حالانکہ ایک سیاستدان کو ہماری طرح بے غرض اور اینٹی مفاد پرست ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''کیا مشکل وقت میں قائد کو چھوڑنا منافقت نہیں‘‘ حالانکہ انہیں تھوڑا صبر اور انتظار کر لینا چاہیے تھا کیونکہ چند ہی ہفتوں میں تاریخی فیصلے ہونے والے ہیں جن کے بعد وہ دوسروں کے ساتھ بھی یہی کچھ کر سکتے تھے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خاں کی شامت؟
آج کل یار لوگوں کا عمران خاں پر انٹ کافی بھخا ہوا ہے اور طرح طرح سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ انہوں نے غلط اور بدنام قسم کے آدمیوں کو پارٹی میں شامل کر لیا ہے جس کی انتہا عامر لیاقت کی شمولیت تھی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی کو بھی پارٹی میں شامل ہونے سے روکا نہیں جا سکتا جبکہ دیگر جماعتوں میں سزا یافتہ تک لوگ موجود ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ عمران خان الیکشن میں ایسے آدمیوں کو ٹکٹ بھی دیں گے؟ چنانچہ یہ شور شرابا قبل ازوقت اور ایک سوچی سمجھی مہم کا حصہ لگتا ہے۔ بیشک اپنی رائے ظاہر کرنے کا حق ہر کسی کو حاصل ہے‘ لیکن یہ بھی سوچنا چاہیے کہ عمران خاں میں کیڑے نکالنے کا ایک مطلب نوازشریف اور آصف زرداری کو فائدہ پہنچانا بھی ہے جبکہ ان دونوں کا شہرت کے معاملے میں ہاتھ اتنا تنگ ہے کہ اس پر کوئی دوسری رائے ہے ہی نہیں۔
اور چوہدری نثار...
عمران خان کے بعد چوہدری نثار بھی نواز لیگیوں کے نشانے پر ہیں کیونکہ یہ کبھی نہیں ہوا کہ جماعت کے اندر سے ہی کسی اہم رہنما پر تیراندازی کی جا رہی ہو۔ وہ چاہتے ہیں کہ اگر نوازشریف چاہیں تو انہیں خود جماعت سے نکال دیں جبکہ نوازشریف کی خواہش ہے کہ وہ خود ہی پارٹی سے نکل جائیں تو اچھا ہے۔ پچھلے دنوں موصوف کا یہ افسوسناک بیان بھی نظر سے گزرا کہ نوازشریف کرپٹ نہیں ہیں‘ کیا وہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر یہ بات کہہ سکتے ہیں؟ اصول تو یہی ہے کہ اگر کوئی کسی سیاسی لیڈر کا حمایتی ہے جو کرپشن میں گوڈے گوڈے دھنسا ہونے کی شہرت رکھتا ہو تو وہ خود بھی کرپٹ ہے۔ اگر ان کا خیال ہے کہ وہ اپنے دوست شہبازشریف کے ساتھ مل کر ایک بار پھر حکومت میں آ جائیں گے تو یہ بھی اُن کی بھول ہے۔ اگر وہ نوازشریف کے انجام سے باخبر ہیں تو وہ شہبازشریف کے انجام سے بھی بے خبر نہیں ہوں گے۔ ان کا اسٹیبلشمنٹ کا چہیتا ہونا بھی کوئی قابل فخر بات نہیں ہے اور بالآخر انہیں اس کا نتیجہ بھی بھگتنا ہو گا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اس کام سے خود بھی بیزار ہو چکی ہے!
اور‘ اب آخر میں کبیر اطہر کے کچھ اشعار
اتنا ہوں اپنے آپ سے بیزار خود سے میں
مفرور ہو چکا ہوں کئی بار خود سے میں
پکڑا گیا ہوں اپنی جڑیں کاٹتے ہوئے
واپس پلٹ نہیں سکا اس بار خود سے میں
گھر میں لگی ہوئی سبھی گھڑیاں اُتار کر
طے کر رہا ہوں وقت کی رفتار خود سے میں
قبضہ ہے میرے ہاتھ پہ نادیدہ ہاتھ کا
خود پر چلا نہیں رہا تلوار خود سے میں
چل تو رہا ہوں میں تری رفتار سے کبیر
آگے نکل نہ جائوں کہیں یار خود سے میں
آج کا مطلع
کیوں ان آباد زمینوں میں اُجڑ کر مر جائیں
بُھوکوں مرنے سے تو بہتر ہے کہ لڑ کر مر جائیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں