فوج و دیگر اداروں سے بات کرنے کیلئے تیار ہوں: نواز شریف
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ '' فوج اور دیگر اداروں سے مذاکرات کیلئے تیار ہوں‘‘ اگرچہ اصل بات یہ ہے کہ فوج اور دیگر ادارے میرے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہوں گے یا نہیں کیونکہ انہیں تو مجھ سے مذاکرات کی ضرورت ہی نہیں اور صرف مجھے ہے جس کیلئے میں آج تک اندر خانے کوشش کرتا رہا ہوں اور ساتھ ہی ساتھ جلسوں وغیرہ میں ان کے قصیدے بھی پڑھتا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''نگران حکومت کے حوالے سے ترامیم ہونی چاہئیں‘‘ اور اسے بھی سزائوں میں معافی کا اختیار ہونا چاہئے کیونکہ میری سزائوں کو نگران حکومت تک لٹکائے جانے پر غور ہو رہا ہے تاکہ مجھے معافی نہ مل سکے‘اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہو سکتی ہے، ہیں جی؟آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
نواز شریف اور زرداری سے مشرف کا دور بہتر تھا: عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے کہا ہے کہ ''نواز شریف اور زرداری سے مشرف کا دور بہتر تھا‘‘ اسی لئے میں نے ریفرنڈم میں جنرل پرویز مشرف کی دل کھول کر مدد کی تھی اور انہیں کامیاب کرایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''ریکارڈ قرضوں کے حوالے سے نواز شریف کا دور زرداری سے برا ہے‘‘ کیونکہ نواز شریف کے دور میں قرضوں میں لی گئی زیادہ تر رقم خدمت کے کھانے میں ڈال دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ''روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی کا طوفان آئے گا‘‘ بلکہ اسے مہنگائی کا سونامی کہنا چاہئے جو میں خیبرپختونخوا میں لانا چاہتا تھا لیکن ذرا شادیوں وادیوں میں مشغول ہونے کی وجہ سے وقت نہیں مل سکا تھا۔ انہوں نے کہا کہ '' مہنگائی کی وجہ سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے‘‘ اگرچہ روحانی اقدامات اور عامر لیاقت کو پارٹی میں شامل کرنے سے میری مشکلات میں بظاہر تو کمی ہوئی ہے لیکن مستقبل کا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
رائو انوار کہاں تھے؟
کئی ماہ کی فراری کے بعد رائو انوار پراسرار حالات میں سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ وہ خود پیش ہو گئے ہیں۔ تاہم یہ بات ابھی تک صیغۂ راز میں ہے کہ وہ اتنا عرصہ کہاں چھپے رہے ہیں جو پولیس سمیت کسی ایجنسی کو بھی دستیاب نہ ہوئے۔ پہلے بھی شبہ ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ چونکہ آصف زرداری کے چہیتے تھے اس لئے غالباً وہ لاہور ہی میں زرداری کے محل میں روپوش تھے۔ اسی لئے کسی ادارے کو وہاں جانے کی جرأت ہی نہ ہوئی۔ اب انہیں عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کیلئے عدالت کی طرف سے گرفتاری کے بعد کراچی بھجوا دیا گیا ہے جہاں پیپلز پارٹی ہی کی حکومت ہے جو اس مقدمہ میں مدعیت کا کردار ادا کرے گی جس کے بارے کسی کو کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں کہ بالآخر یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور پولیس مقابلوں میں قتل ہونے والے درجنوں معصوم لوگوں کے لواحقین کے زخموں پر مرہم کیسے رکھا جائے گا، پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔
باہر جانے کی اجازت؟
اطلاعات کے مطابق عدالت نے میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو بیگم کلثوم نواز کی عیادت کیلئے لندن جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے اگرچہ مذکورہ الزام علہیان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی کارروائی بھی زیر غور تھی جس کی وجہ سے پراسیکیوٹر نے ان کی درخواست کی مخالفت کی کہ ایک تو اس سے مقدمہ کی سماعت میں تاخیر ہو گی اور دوسرے وہ لوٹ کر نہیں آئینگے اور میاں صاحب اپنے سمدھی اسحاق ڈار کی ہدایت پر عمل کریں گے۔ ہماری رائے میں انسانی ہمدردی کے نکتہ نظر میں انہیں چار دن کیلئے باہر جانے کی اجازت دے دینی چاہیے تھی کیونکہ اگر وہ لندن جا کر واپس نہ آتے تو ان کیخلاف یکطرفہ کارروائی میں سزا ہو جاتی جبکہ عدالت سے مفرور ہونا بجائے خود ان کیلئے رسوائی کا باعث ہوتا۔ اگرچہ جتنی رسوائی یہ خاندان اب تک بھگت چکا ہے وہی بہت ہے اور شاید مزید رسوائی میں کوئی ہرج بھی نہ سمجھے کہ جہاں ستیاناس ، وہاں سوا ستیاناس بھی قبول ہونا چاہئے۔
اور اب کچھ شعرو شاعری ہو جائے:
ٹھیک کہتے ہیں سبھی عشق پریشانی ہے
ہاں مگر پہلے مجھے کونسی آسانی ہے
میں اندھیرے میں تو خود کو بھی نظر آتا نہیں
تُو مجھے دیکھ رہا ہے مجھے حیرانی ہے
(کاشف حسین غائر )
کیوں کوئی کاٹتا نہیں، سر کوئی پھوڑتا نہیں
سنگ و سگانِ راہ بھی راہ پہ آ گئے ہیں کیا
(اعتبار ساجد)
آخر کو ہنس پڑیں گے کبھی ایک بات پر
رونا تمام عمر کا بیکار جائے گا
(خورشید رضوی)
میں تو خود پر بھی کفایت سے اسے خرچ کروں
وہ ہے مہنگائی میں مشکل سے کمایا ہوا شخص
(شہزاد نیر)
دیکھ‘ اٹھا نہ جائے گا مجھ سے
اتنا نزدیک مت بٹھا مجھ کو
(طارق اسد)
اس کے الفاظِ تسلی نے رُلایا مجھ کو
کچھ زیادہ ہی دھواں آگ بجھانے سے اٹھا
(ظہیر صدیقی)
اِک غزل میر کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اِک نمی سی مری دیوار میں آ جاتی ہے
(خرم مشتاق)
میں شہر میں اجنبی نہیں ہوں
اک شخص مجھے بھی جانتا ہے
(نوید صادق)
آج کا مقطع
خود کھلا غنچہ لب اس کا، ظفرؔ
یہ شگوفہ نہیں چھوڑا میں نے