ملکی ترقی جمہوری نظام کے تسلسل اور ووٹ
کے تقدس میں پنہاں ہے: نواز شریف
نا اہل اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ملکی ترقی جمہوری نظام کے تسلسل اور ووٹ کے تقدس میں پنہاں ہے‘‘ ترقی کے بارے میں تو پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ کرپشن کے بغیر ترقی کے بارے میں سوچا ہی نہیں جا سکتا جبکہ جمہوری نظام بھی جب تک ورائٹی نہ ہو چل نہیں سکتا اور ووٹ کا کم از کم اتنا تقدس ضرور ہونا چاہئے جتنا خاکسار نے اپنے ہر دور میں ہمیشہ کیا ہے نیز معاشروں کو قابو کرنے کے جو جو طریقے ہم اختیار کرتے ہیں اور جہاں جہاں سے آشیرباد حاصل کرنی پڑتی ہے وہ سب کو معلوم ہے اور جس میں اس وقت کامیابی کی کوئی صورت نظر ہی نہیں آ رہی حتیٰ کہ فوج نے مذاکرات سے ہی انکار کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کا وقت گزر چکا ہے حالانکہ ٹھیک کام کیلئے کوئی معیاد نہیں ہوتی، نیز توبہ کا دروازہ اللہ تعالیٰ بھی کھلا ہی رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' آئین کی حکمرانی ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے‘‘ لیکن متعلقہ ادارے کی طرف سے آئین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں‘ آپ اگلے روز یوم پاکستان پر قوم کے نام پیغام دے رہے تھے۔
عوام سوچیں کس جماعت نے ان کے
حقوق کیلئے جدوجہد کی: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عوام سوچیں کس نے ان کے حقوق کیلئے جدوجہد کی‘‘ اگرچہ انہیں حقوق آج تک مل سکے کیونکہ ہم ان کے حقوق کے علاوہ اپنے حقوق کیلئے بھی جدوجہد کر رہے تھے جس میں مثالی کامیابی حاصل کی کیونکہ ہمارا مقابلہ نواز شریف اور ان کے اُن حقوق سے تھا جو انہوں نے منوں اور ٹنوں کے حساب سے حاصل کر لئے تھے۔ اس لئے ان کا مقابلہ کرنا ہمارا فرض تھا جو ہم نے پوری طرح سے ادا کیا جبکہ بعض اوقات ان سے بھی آگے نکل گئے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے کل بھی عوام کے حقوق کیلئے آواز بلند کی اور آئندہ بھی کریں گے‘‘ کیونکہ حقوق اگر صحیح ہوں تو محض آواز بلند کرنے سے حاصل ہو جاتے ہیں لیکن یہاں حقوق ہی ایسے تھے تو وہ حاصل کیونکر ہو سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''امید ہے کہ کامیابیوں کا ہمارا سفر جاری رہے گا‘‘ جبکہ پچھلی دفعہ بھی اخلاقی فتح جاری ہی تھی۔ آپ اگلے روز بھلوال میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
الیکشن میں ایک ہزار امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیں گے: عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے کہا ہے کہ ''الیکشن میں ایک ہزار امیدواروں کو پارٹی ٹکٹ دیں گے‘‘ جبکہ عامر لیاقت اکیلے ہی ایک ہزار کے برابر ہیں، نیز میرے خلاف وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ، انہوں نے بتایا ہے کہ ''وہ سیاسی بیانات تھے‘‘ کیونکہ اگر نواز شریف سیاسی کہہ کر اپنے بیان سے مکر سکتے ہیں تو ان کے آگے عامر لیاقت کیا چیز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ '' 2018 میں میچ جیتنے والے کھلاڑی شامل کریں گے‘‘ وہ جیسے بھی ہوں کیونکہ میچ جیتے بغیر وزارت عظمیٰ کا دیرینہ خواب کیسے پورا ہو سکتا ہے جو میں ہر رات کو دیکھتا ہوں اور اگر نیند نہیں بھی آتی تو یہ خواب دیکھنے کیلئے خواب آور گولیاں کھا لیتا ہوں ‘ان پر جھاڑ پھونک بھی کروا لیتا ہوں کیونکہ اگر گھر میں ہی گنگا بہہ رہی ہو تو اس میں ڈبکی نہ لگانا کفران نعمت سے کم نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
ادارے سیاسی ہو گئے، سیاستدانوں سے
زیادہ بیانات ججوں کے آ رہے ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ اور ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ '' ادارے سیاسی ہو گئے، سیاستدانوں سے زیادہ بیانات ججوں کے آ رہے ہیں‘‘ اور انہوں نے ہسپتالوں بلکہ ہر جگہ پہنچنا شروع کر دیا ہے اس لئے ضروری ہو گیا ہے کہ اب سیاستدان بھی عدالتوں میں جا کر صورتحال کا جائزہ لیا کریں اور خرابیوں کو دور کرنے کا اہتمام کریں بلکہ بغیر اطلاع چھاپے مارا کریں تا کہ قابل اعتراض فیصلے برآمد کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ '' فوج مارشل لاء اور سیاست کے میدان میں قدم رکھے گی تو ہم میدان میں آئیں گے‘‘ تا کہ ان کا شایان شان استقبال کر کے انہیں پھولوں کے ہاروں سے لادا جا سکے جیسا کہ ہر روز ایسا کرتے اور ہر فوجی حکومت کے شانہ بشانہ اور قدم سے قدم ملا کر چلتے ہیں کیونکہ ماشاء اللہ اداروں کے پاس بھی فنڈز کی کمی نہیں ہوتی اور وہ ضرورتمند سیاستدانوں کا خود بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے۔ آمین ثم آمین، آپ اگلے روز نوابشاہ میں ایک کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں کچھ ضمیر طالب:
رہتا ہوں ایسی محبت میں جو پائی نہیں ہے
ٹھیک ہوں ایسی دوا سے ہی جو کھائی نہیں ہے
دیکھ کر اس نے میری ساری کی ساری دنیا
اور اپنی مجھے آدھی بھی دکھائی نہیں ہے
آسماں سر پہ بنانے میں رہا ہوں مصروف
پردوں کے نیچے زمیں میں نے بنائی نہیں ہے
ڈھونڈتا اور کسی کو رہاہوں
اور تلاش اور کسی کی تھی مجھے
یہاں میں آیا کسی اور کام سے تھا ضمیر ؔ
اور اس نے اور کسی کام پر لگا دیا ہے
لوگ سچ سے اتنے خائف ہیں ضمیر ؔ
جھوٹ کہہ کر سچ بتانا پڑتا ہے
سنا ہے نیند میں بکتا ہوں گالیاں اکثر
یہی دلیل بہت ہے مری شرافت کی
آج کا مطلع
ہجومِ حسرت و آلام سے نکل آیا
نکل پڑا تو میں آرام سے نکل آیا