کتابیں زیادہ جمع ہوتی رہتی ہیں اور میں عام طور پر ان کی اشاعت کی اطلاع ہی دے سکتا ہوں اور بعض کتابوں پر لکھنا چاہتا ہوں لیکن ان کی ورق گردانی سے اپنے آپ پر رحم آنے لگتا ہے کیونکہ جن کتابوں کے پس سرورق اہم ادیبوں کے تحریر کردہ ہوتے ہیں‘ انہیں نظرانداز بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن چند صفحات ہی پڑھنے کے بعد ان رائے دینے والے حضرات کی فیاضی پر افسوس بھی ہوتا ہے اور حیرت بھی۔ میں شاعری کے سارے مجموعے پڑھتا نہیں ہوں بشرطیکہ وہ خود اپنے کو پڑھنے پر مجبور نہ کر دیں کیونکہ شاعری کو بیگار کے طور پر نہیں پڑھا جا سکتا اور نہ ہی یہ میری کوئی مجبوری ہے۔مثلاً کسی مجموعہ غزل کے پانچ سات شعر پڑھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ شاعر کس فضا کا آدمی ہے‘ اس کا پیرائیہ اظہار کیا ہے‘ اسے جدت کی کوئی ہوا لگی ہے یا اس نے اپنے آپ کو اس سے بچا کر رکھا ہوا ہے کیونکہ میری دانست میں وہ پیرائیہ اظہار ہی ہے جو شاعری اور ناشاعری میں حد فاصل قائم کرتا ہے چنانچہ اگر تو یہ ایسی شاعری ہے جس سے بہت بہتر شاعری پہلے ہو چکی ہے تو اس کا نہ کوئی فائدہ ہے نہ جواز، ورنہ بری یا کمزور شاعری کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہے اور نہ ہی ایسی شاعری کے لیے قانون میں کوئی سزا مقرر ہے۔ اس لیے آپ کفِ افسوس ہی ملتے رہ جاتے ہیں۔
مجھے ان نہایت معتبر ادیبوں پر حیرت ہوتی ہے جو رائے دیتے وقت بیحد معمولی شاعری کو غیر معمولی قرار دینے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے۔ یہ ان کی مجبوری بھی ہو سکتی ہے کیونکہ انہیں بالعموم توصیفی رائے ہی دینا ہوتی ہے کیونکہ یہ کوئی تنقید پارہ نہیں ہوتا اور مقصد صرف تعریف کرنا ہوتا ہے جس سے رائے لینے والوں کا مقصد تو پورا ہو جاتا ہے لیکن قارئین کے ساتھ ناانصافی بھی ہوتی ہے۔ بیشک بے مزہ اور تھکی ہوئی شاعری کے بھی اپنے قارئین ہوتے ہیں لیکن اسے معیار ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
آج ہی مجھے شاعری کے چار مجموعے موصول ہوئے ہیں، جو یوں سمجھیے کہ ایک سے ایک بڑھ کر ہیں اور رائے دینے والوں نے ان کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے کیونکہ خلافِ واقعہ تعریف پر شاعر سے زیادہ‘ رائے دینے والے پر افسوس ہوتا ہے جو ایسا کر کے اپنا اور صرف اپنا اعتبار خراب کرتے ہیں کیونکہ روایتی اور ٹھس شاعری کی تعریف کرنا بھی اتنا ہی بڑا جرم ہے جتنا عمدہ شاعری کی تنقیص کرنا۔ میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ شاعری کی ٹرین میں صرف فسٹ کلاس ہوتی ہے اور تھرڈ کلاس۔ اس میں درمیانہ درجہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ درمیانے درجے کی یا گزارے موافق شاعری بھی کوئی شاعری نہیں ہوتی۔
میں اپنے آپ کو شاعری پر کوئی سند یا اتھارٹی نہیں سمجھتا لیکن جو خواتین و حضرات مجھے رائے دہی کے لیے اپنے مجموعے ارسال کرتے ہیں‘ انہیں میری رائے پر غور بھی کرنا چاہیے۔ غزل گوئی کی شرط تو یہ ہے اسے وہاں سے شروع کیا جائے جہاں تک جدید غزل پہنچ چکی ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو غزل گوئی کی بجائے کوئی اور کام کرنا چاہیے کیونکہ شعری مجموعہ تو ایک چیلنج ہوتا ہے جسے آپ دنیا کے سامنے پھینکتے ہیں جبکہ شعروادب میں کوئی رعایتی نمبر نہیں ہوتے اور رعایتی نمبر وہی لوگ دیتے ہیں جو خود رعایتی نمبروں کے طلب گار ہوتے ہیں۔
جیسے عشق بالعموم پہلی نگاہ پر ہو جاتا ہے ویسے ہی شعر کا پتا بھی اسے دیکھتے ہی چل جاتا ہے کہ مصرع کس طرح بنایا گیا اور مضمون نیا ہو یا پرانا‘ اسے ادا کس طرح کیا گیا ہے چنانچہ شعر کو پرکھنے میں کسی خاص ناپ تول کی ضرورت نہیں پڑتی ‘وہ آپ کو گھائل کر دیتا ہے یا آپ کے سر سے گزر جاتا ہے۔ جبکہ اچھے یعنی عمدہ شعر کی پہچان بھی یہی ہے کہ وہ عام روش سے کتنا مختلف ہے یا محض مکھی پر مکھی ماری گئی ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ اس میں کوئی بڑی یا زبردست بات کہی گئی ہو کیونکہ شعر اگر ہو تو کسی چھوٹی بڑی بات کے بغیر بھی ہو جاتا ہے کیونکہ شعر اگر ہے تو وہ بولتا ہے بلکہ شور مچاتا ہے کہ میں ہوں!
اب ذرا مختصر تذکرہ ان چار شعری مجموعوں کا بھی ہو جائے جن کے بارے میں اوپر لکھا ہے کہ مجھے آج ہی موصول ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے تو ''ابدآثار‘‘ کے نام سے سید نصیر الدین نصیرؔ کا مجموعہ غزلیات ہے جسے محمد احتشام نے مرتب کیا ہے پس سرورق اعترافِ معاصرین کے عنوان سے جن معززین کی آرا شامل کی گئی ہیں ان میں ڈاکٹر مظفر حنفی، پروفیسر اقبال چیئر کلکتہ یونیورسٹی، پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم وائس چانسلر ضیاء الدین یونیورسٹی کراچی اور پروفیسر جلیل عالی شامل ہیں جبکہ دیباچہ نگاروں میں افتخار عارف، سرور جاوید، سید انوار الحسن، کاشف گیلانی اور دلاور علی آزرؔ ہیں جبکہ پیش گفتار مرتب محمد احتشام کے قلم سے ہے۔ سرسری ورق گردانی سے زیادہ میں اس شاعری سے مستفید نہیں ہو سکا کیونکہ جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے کہ شاعری اپنے آپ کو خود پڑھواتی ہے۔ اس کی قیمت 600 روپے ہے۔ دوسرا قابل ذکر مجموعہ ''امکان‘‘ کے نام سے محمد اکرم جاذبؔ کی غزلوں پر مشتمل ہے۔ پس سرورق اس شاعر کے گن گانے والوں میں افتخار عارف سربراہ ادارہ فروغ قومی زبان اور قمر رضا شہزاد ہیں اسے رومیل ہائوس آف پبلی کیشنز نے چھاپا اور قیمت 350 روپے رکھی ہے۔ اس نے بھی مجھے کوئی خاص متاثر نہیں کیا ہے لیکن اس میں سے کچھ شعر ڈھونڈ کر میں اپنے کالم کی زینت ضرور بنائوں گا۔ ان شاء اللہ۔
تیسری کتاب ''سامان دل کا‘‘کے عنوان سے رفیق ارمؔ کا مجموعہ غزل ہے جسے مثال پبلشرز فیصل آباد نے چھاپ کر اس کی قیمت 250 روپے رکھی ہے۔ انتساب پردادا چوہدری جان محمد چوہان اور پردادا استاد داغؔ دہلوی کے نام ہے۔ اس کا دیباچہ پروفیسر شفیع ہمدم نے لکھا ہے۔ اندرون سرورق حنیف باوا (جھنگ) اور احمد شہباز خاور فیصل آباد کے قلم سے ہے۔ یہ بھی کم و بیش گزارے موافق شاعری ہے؛ تاہم امید ہے کہ اس میں سے بھی پانچ سات شعر ضرور نکل آئیں گے۔
چوتھا مجموعہ ''بڑی دیر کے بعد‘‘ سعید نازؔ کی غزلوں پر مشتمل ہے۔ اسے بھی مثال پبلشرز نے چھاپا اور قیمت 200 روپے رکھی ہے۔ پس سرورق احمد حسین مجاہد کی تحسینی رائے ہے اور شاعر کی تصویر، اندرون سرورق دونوں طرف شاعر کے منتخب اشعار درج ہیں۔ دیباچے پروفیسر بشیر احمد سوزؔ اور سلطان سکون کے قلم سے ہیں۔ اس شاعر نے حتی الامکاں اپنے آپ کو جدید طرزِ اظہار سے بڑی کامیابی سے بچایا ہے۔ انتساب اپنے والد بزرگوار جناب اخونزادہ محمد شاہ (مرحوم و مغفور) کے نام ہے۔
دراصل تو میں نے یہ کالم ضائع ہی کیا ہے۔ لیکن اتنے میں بھی اگر کسی کا بھلا ہو جائے اور اسے اپنی شاعری کا کچھ اندازہ ہو جائے تو کیا برا ہے۔ جہاں خراب، کمزور اور بری شاعری کے مجموعے دھڑا دھڑ چھپ رہے ہوں وہاں ایسی کتابوں پر بھی حیران یا پریشان ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کی غلطیاں معاف کرے۔ آمین!
آج کا مقطع
ظفرؔ ہمارا اور اُس کا یہ نغمۂ محبت
الگ الگ اور جُدا جُدا ہے‘ یہی بہت ہے