جہاں بھی جائوں گا‘ کال دوں گا اور عوام باہر نکلیں گے: نواز شریف
نااہل اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''جہاں بھی جائوں گا‘ کال دوں گا اور عوام باہر نکلیں گے‘‘ اگرچہ ان کے باہر نکلنے کا معاملہ خاصا مشکوک ہے کیونکہ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے‘ میرے بار بار کہنے پر باہر نہیں نکلے اور گٹوں گوڈوں اور دیگر اعضا پر راکھ مل کر بیٹھے ہوئے ہیں تو میرے جیل میں جانے پر کب باہر نکلیں گے جبکہ اس وقت ہماری حکومت بھی ختم ہو کر نگران حکومت قائم ہو چکی ہو گی‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''مجھے جیل میں ڈالنا ہے تو ڈال دیں‘‘ کیونکہ جاتے ہی وہاں بھی کسی بہترین ہسپتال میں داخل ہو جائوں گا، جہاں موجیں ہی موجیں ہوں گی اور عدالت ہاتھ ملتی رہ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''قومی خزانہ لوٹا ہوتا تو آج یہاں نہ کھڑا ہوتا‘‘ کیونکہ ابھی فیصلہ نہیں آیا اس لیے جہاں چاہوں کھڑا ہو سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہمارے ہاتھ باندھ رہے ہیں‘‘ اس لیے نہ ترقی ہو رہی ہے اور نہ ہی ترقی سے متعلقہ دیگر لوازمات پورے ہو رہے ہیں۔ آپ اگلے روز نیب عدالت سے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اداروں سے ٹکرائو مخالفین کا پروپیگنڈہ ہے: پرویز رشید
نون لیگی رہنما سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''اداروں سے ٹکرائو مخالفین کا پروپیگنڈہ ہے‘‘ کیونکہ قائد سمیت ہم سب فوج اور عدلیہ کا دم بھرتے ہیں جسے مخالفین ٹکرائو کا نام دے رہے ہیں کیونکہ ٹکرائو تو ہم ویسے بھی نہیں کرتے‘ صرف سپریم کورٹ پر حملہ کرتے ہیں تاکہ وہ ہوش کے ناخن لے جبکہ ہوش و حواس میں رہنا صحت کے لیے ویسے بھی بہت مفید ہوتا ہے۔ بلکہ ڈان لیکس پر بھی کوئی ہمارا بال بیکا نہیں کر سکا۔ انہوں نے کہا کہ ''فیصلوں پر تنقید اور تحفظات ظاہر کرنا ہمارا حق ہے جو ہمیں آئین دیتا ہے‘‘ کیونکہ اصل اور نیک مقصد عدلیہ کے فیصلوں کو متنازع بنانا ہے تاکہ قید وغیرہ کی صورت میں لوگ یہ سمجھیں کہ انہیں واقعی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے اور سپریم کورٹ پر معمولی سے حملے کا انتقام لیا جا رہا ہے کیونکہ انتقام کی آگ سینوں میں سالہا سال تک روشن رہتی ہے۔ آپ اگلے روز ایک سینئر صحافی کے سوالات کا جواب دے رہے تھے۔
نواز اداروں پر تنقید‘ شہباز تعریف کرتے
ہیں‘ دونوں قومی مجرم ہیں : عمران خان
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ''نواز شریف اداروں پر تنقید اور شہباز تعریف کرتے ہیں‘ دونوں قومی مجرم ہیں‘‘ کیونکہ یا تو دونوں کو تنقید کرنی چاہیے یا دونوں کو تعریف جبکہ ایک کی تعریف اور دوسرے کی تنقید کھلا تضاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سپریم کورٹ نے مجھے صادق اور امین قرار دیا‘‘ اگرچہ نواز شریف کی نااہلی کی طرح یہ بھی ایک کمزور فیصلہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''زرداری سے اتحاد نہیں ہو سکتا‘‘ جبکہ سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں بھی اتحاد نہیں کیا‘ صرف ہاتھ ملایا تھا۔ آپ اگلے روز برطانوی میئر سے ملاقات کر رہے تھے۔
مُلک سے نہیں بھاگ رہا‘ خبر گمراہ کن ہے: دانیال عزیز
وفاقی وزیر دانیال عزیز نے کہا ہے کہ ''ملک سے نہیں بھاگ رہا‘ خبر گمراہ کن ہے‘‘ کیونکہ اگر بھاگنے کا کوئی فائدہ ہوتا تو ہمارے قائد اب تک دس دفعہ بھاگ چکے ہوتے کیونکہ انہیں بھی پتا ہے کہ انہیں انٹرپول کے ذریعے واپس بھی لایا جا سکتا ہے۔ اس لیے وہ جیل جانے کو ترجیح دیں گے جبکہ ان کی سزا ویسے بھی صدر کے ذریعے معاف کرا لی جائے گی اور سزا دینے والے اپنا سا منہ لے کے رہ جائیں گے‘ حالانکہ میں نے نئے جاگرز تو خرید لیے تھے لیکن پھر سوچا کہ اگر نہال ہاشمی کو عدالت نے اتنی گالیوں کے بعد بھی معاف کر دیا ہے تو میں بھی پورے خشوع و خضوع سے معافی مانگ لوں گا جبکہ نااہلی کے خوف سے بھاگنا ویسے بھی بزدلوں کا کام ہے اور ہم بزدل نہیں ہیں بلکہ عدالت کو برا بھلا کہنے کے بعد اور بھی بہادر ہو گئے ہیں اور اسی لیے عدالت ہمیں کچھ نہیں کہتی۔ جسٹس سجاد علی شاہ کے زمانے سے‘ اس نے پہلے بھی ہمارے ہاتھ دیکھے ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک مقامی روزنامے سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل :
کوئی نئی بنیاد اُٹھانی پڑتی ہے
لکھی ہوئی تقدیر مٹانی پڑتی ہے
چلتے وقت چھپائے رکھتے ہیں‘ لیکن
آگے جا کر بات بتانی پڑتی ہے
چادر ایک جدائی کی ہے پاس اپنے
وہی اوڑھنی اور بچھانی پڑتی ہے
کبھی پھلانگ لیا کرتے تھے لیکن اب
رستے سے دیوار ہٹانی پڑتی ہے
بھینس ہی جب اتنی پیاری سی ہو تو پھر
اس کے آگے بین بجانی پڑتی ہے
اندر کی گڑبڑ کو روکنے کے لیے
باہر سے آواز لگانی پڑتی ہے
پہنچانا ہو جب دل کا پیغام کہیں
تار سے کوئی تار ملانی پڑتی ہے
رُوکھی سُوکھی یہی محبت کی روٹی
تھوڑی کھانی‘ بہت بچانی پڑتی ہے
کامیاب شہری ہیں ظفرؔ اس دنیا کے
جھوٹی سچی خوشی منانی پڑتی ہے
آج کا مقطع
ظفرؔ میں اُس کے تغافل پہ نااُمید سہی
مآلِ کار مگر خوش گمانی والا ہوں