میں اگر کسی سے اختلاف یا تنقید کرتا ہوں تو خود سے اختلاف اور تنقید کو خندہ پیشانی کے ساتھ خوش آمدید بھی کہتا ہوں۔ یہ میرا طریقہ ہے اور سب کو معلوم ہے‘ لیکن جب یہ اختلاف تلخ گوئی کے مدار میں داخل ہونے لگے تو ہاتھ کھڑے کر دیتا ہوں کیونکہ میں ایسی گاڑی کا بیل ہی نہیں ہوں۔ میں نے کچھ روز پہلے بھارتی شاعر جناب ستیہ پال آنند کی کچھ نظموں میں وزن کی کمی بیشی کی نشاندہی کی تھی جسے انہوں نے تسلیم نہیں کیا بلکہ نیکی برباد گناہ لازم والی صورتحال پیدا ہو گئی جس پر ان سے معافی کا خواستگار ہوتے ہوئے اس راستے پر آگے چلنے سے معذرت کر رہا ہوں۔ ویسے نہ میرے فرائض میں شامل بھی نہیں ہے کہ خواہ مخواہ کی سر کھپائی کرتا رہوں۔ اگر وہ میرے ساتھ سینگ پھنسا کر کچھ اہمیت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو الگ بات ہے حالانکہ یہ ساری توجہ انہیں ابھی شاعری پر صرف کرنی چاہیے۔ ہمارے دوست نیر صاحب تو یہ کہتے ہیں کہ آپ الٹا ستیہ پال آنند کی مشہوری کر رہے ہیں اور اگر ایسا ہی ہے تو جہاں میں کئی اور لوگوں کی مشہوری کر چکا ہوں ایک یہ بھی سہی‘ اگرچہ اپنی کوئی خاص مشہوری نہیں کر سکا ہوں۔ چنانچہ میرا یہ فیصلہ ہے کہ آئندہ نہ تو آنند صاحب کی کسی بات پر کان دھروں گا اور نہ ہی کوئی جواب دوں گا‘ وہ جو جی میں آئے کہتے رہیں۔ مجھے بھارت کے ہر شہری سے محبت ہے اور آنند صاحب تو ایک سینئر شاعر بھی ہیں۔ اس لیے اس سلسلے کو خیرباد کہتے ہوئے اسی پر ختم ہوں کہ آپ اپنے گھر میں خوش رہیں میں اپنے گھر میں خوش ہوں۔ جاتے جاتے ان کی خدمت میں یہ شعر بھی کہ
جُرم جو تھا ہی نہیں اُس کی صفائی میں گزر جائے
عمر باقی نہیں اتنی کہ لڑائی میں گزر جائے
بات تو میں جناب فیض عالم بابر کی کرنا چاہتا تھا جنہوں نے میری کتاب کا آپریشن کیا تھا‘ جن کی کچھ باتوں سے مجھے اتفاق ہے اور کچھ سے اختلاف اس کے ساتھ چھپنے والی میری دوسری کتاب بھی ان کے زیرنظر ہے اس پر بھی تبصرے کا منتظر رہوں گا بلکہ میں نے اپنے پبلشر دوست جناب شاعر علی شاعر سے کہا ہے کہ انہوں نے میرا جو کلیات (اب تک کی پانچویں جلد) شائع کی ہے‘ وہ بھی انہیں بھیجیں تاکہ وہ اسے بھی دیکھ لیں وہ عمر میں مجھ سے بہت چھوٹے ہیں لیکن ادب میں چھوٹے بڑے کا سوال ہی بے معنی ہے اگر مجھے کوئی کام کی بات یا چیز وہاں سے حاصل ہو جائے تو کیا برا ہے۔
پرندے کا پھڑکنا اور پھڑپھڑانا واقعی دو مختلف کیفیتیں ہیں۔ میں نے اس کو اپنے ان اشعار میں بھی واضح کیا ہے:
پھڑپھڑاتا ہو سیہ شاخ میں اُلجھا ہوا چاند
چاندنی عکس کوئی اڑتا ہوا لگتی ہو
کچھ دیر پھڑپھڑا کے نکل جائیے‘ مگر
وہ نام دل پذیرکہیں زیرِ پرتو آئے
تیر کھایا تھا کسی اور طرف سے لیکن
آ گرا ہوں ترے پہلو میں پھڑکتا ہوا میں
انہوں نے یہ بات بھی بجاطور پر لکھی ہے کہ محاورے کو شعر میں من و عن باندھنا چاہیے۔ تاہم میں نے کہیں کہیں محاورے کی شکل یا معنی کو تبدیل بھی کیا ہے۔ مثلاً:
ایسی آپ لکیر ہیں
جس کے سبھی فقیر ہیں
بھوکا ہوں میں اور آپ
خاصی ٹیڑھی کھیر ہیں
بین جب سے بجا رہا ہوں ظفر
میرے چاروں طرف ہے کیا کیا بھینس
دیکھیے اپنا ہی بھانڈا کیسا
عین چوراہے میں پھوڑا میں نے
وہی معشوق ہے اپنا جس کو
کچھ بچھاتا ہوں تو کچھ اوڑھتا ہوں
رنڈوا خود ہے جو ظفر
کیا کڑمائی کرے گا
وہ کم نما ہے تو آنکھوں کی روشنی ساری
خوشی خوشی سے اُسے مُنہ دکھائی دے رہا ہوں
یہ اور ان کے علاوہ بھی بے شمار۔ اگرچہ انہیں کچھ اشعار میں دَم کا پہلو بھی نظر آئے گا۔
اور‘ اب کچھ دوسروں کی شاعری بھی ہو جائے :
کہیں کہیں تری پوشاک سے جھڑیں شامیں
کہیں کہیں ترے پیکر سے روشنی کر لی (خمار میرزادہ)
اک مقام ایسا بھی آتا ہے سفر میں جواد
سامنے ہو بھی تو دلدل نہیں دیکھی جاتی (جواد شیخ)
جب سے ہوا ہے دل کا نقصان کچھ زیادہ
آنے لگے ہیں گھر میں مہمان کچھ زیادہ
ہر شخص کر رہا ہے جب بھی علاج‘ سمجھو
مرنے کے ہو گئے ہیں امکان کچھ زیادہ
پیچھے ہی رہ گیا ہے وہ زندگی میں شاید
رکھا ہوا تھا جس نے سامان کچھ زیادہ (شاہد رحمن)
ابھی تو عشق مکمل نہیں ہوا مجھ پر
ابھی تو یاد ہے سب کچھ ابھی تو دھیان میں ہے (عمار)
آج کا مقطع
فرق ہونا تو چاہیے تھا‘ ظفر
کچھ محبت میں اور حماقت میں