"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور شعر و شاعری

پتہ نہیں دس بیس دن کے بعد کہاں ہوں گا: نواز شریف
مستقل نااہل اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''پتہ نہیں دس بیس دن کے بعد کہاں ہوں گا ‘‘ اگرچہ مجھے خوب پتا ہے اور اس جگہ کی صفائی ستھرائی بھی ہو چکی ہے جبکہ پتا نہ ہونے کا بیان ایسا ہی ہے جیسے مجھے کیوں نکالا‘ اور یہ بھی کہ کوئی کرپشن ثابت نہیں ہوئی اور پتا نہیں مقدمہ کس چیز پر چلایا جا رہا ہے حالانکہ منی ٹریل پیش نہ کر سکنے کا مطلب یہی تھا کہ روپیہ کہاں سے آیا اور بیرونِ ملک منی لانڈرنگ نہیں تو اور کس طرح پہنچا، وغیرہ وغیرہ اور یہ اس لئے تھا کہ آخر کچھ بیان بھی تو دینا ہوتا ہے ، ہیں جی ؟ انہوں نے کہا کہ ''میرے نظریے میں کوئی فرق نہیں آئے گا ‘‘ کیونکہ ماشاء اللہ نیا نیا نظریہ ہے، اس کی حفاظت تو کرنی ہی چاہئے کیونکہ گزشتہ 35 سال تو کسی نظریے کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''آئندہ انتخابات میں ووٹ کو عزت دلوائیں گے ‘‘ تاکہ زیادہ سے زیادہ مل سکیں اور جہاں تک ووٹر کی عزت کا سوال ہے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ اس کی قسمت میں ہی نہیں لکھی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر ملک کی تقدیر کو بدلناہے تو ہمیں اپنا راستہ بدلنا ہو گا ‘‘ جو کہ تقریباً ناممکن ہے کیونکہ عادتیں تو قبروں تک ساتھ رہتی ہیں اور جس کا مطلب ہے کہ وہ بہت وفادار ہوتی ہیں، ہمارے بھگوڑے ارکان اسمبلی کی طرح نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''اوپر سے آرڈر لینے والے سیاستدان منافق ہیں ‘‘ اگرچہ ہم بھی ابھی کل تک اوپر سے ہی آرڈر لے کر الیکشن جیتتے رہے ہیں لیکن اب اگر ہماری کچھ مجبوریوں کی وجہ سے اوپر سے آرڈرز آنا بند ہو گئے ہیں تو ہم کیا کریں۔ انہوں نے کہا کہ ''ووٹ کو عزت کا نعرہ گھر گھر پہنچ چکا ہے ‘‘ اور ہر شخص اس پر حیران بھی ہو رہا ہے کہ ووٹر کو بے عزت کرتے رہنے سے ووٹ کی عزت کا کیا مطلب ہے ، جو میں بعد میں بتائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ''میں جہاں بھی ہوں گا، اپنے موقف پر ڈٹا رہوں گا‘‘ کیونکہ ایک طویل عرصے بعد ایک موقف ہاتھ آیا ہے تو اس پر ڈٹا ہی رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ'' ملکی تاریخ میں فیصلہ کن موڑ آگیا ہے ‘‘ اور یہ فیصلہ اب محض چند مہینوں ہی کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہماری پارٹی کو توڑنے کی بہت کوشش کی گئی ہے ‘‘ اور اسے وہی لوگ توڑ رہے ہیں جن کی یہ اپنی ہی پارٹی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''کچھ لوگ جو گئے وہ ہمارے تھے ہی نہیں ‘‘ بلکہ جو مزید جائیں گے وہ بھی ان کے آدمی ہوں گے جن کے کہنے پر وہ آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''آج تک کسی وزیر اعظم نے اپنی مدت پوری کی؟ ‘‘ حالانکہ سبھی وزیر اعظم ہمارے ہی جیسے صاف ستھرے تھے لیکن افسوس کسی کو صفائی پسند ہی نہیں ہے حتیٰ کہ ہاتھ کی صفائی بھی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ملک ترقی نہیں کر رہا۔ انہوں نے کہا کہ ''ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے ‘‘ حالانکہ کئی اور جگہوں پر بھی وزیر اعظم ایسے ہی ہوتے ہیں لیکن انہیں کبھی کسی نے نہیں روکا۔ انہوں نے کہا کہ ''مجھے اور آپ کو اپنی اپنی تلافی کرنا ہو گی‘‘ جبکہ میری تلافی تو عدالت ہی کی طرف سے ہو رہی ہے۔ آپ اپنی فکر کریں بلکہ میرے ساتھ کئی دیگر ساتھیوں کی بھی ہو رہی ہے جن میں ہمارے معصوم بیورو کریٹ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج حکومت کی رٹ کہاں ہے ؟ ‘‘ حالانکہ حکومت ہماری ہی ہے لیکن میرے نااہل ہوتے ہی اس کی رٹ پتہ نہیں کہاں غائب ہو گئی۔ میں عباسی صاحب سے پوچھوں گا کہ اگر رٹ کہیں چلی گئی ہے تو اسے واپس لائیں، اگرچہ یہ بھی چودھری نثار کو واپس لانے سے کچھ کم مشکل کام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ترقی کرتا ہوا ملک پیچھے کی طرف دوڑ رہا ہے ‘‘ اگرچہ اشتہارات کے ذریعے ترقی اب بھی ہو رہی ہے لیکن جب میری دوڑ لگوائی گئی تو ملک بھی پیچھے کی طرف دوڑنے لگ گیا اور اس کی سپیڈ پر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی ملک اس سپیڈ سے بھی دوڑ سکتا ہے۔ یقینا اس پر شہباز صاحب کی سپیڈ کا کوئی اثر ہوا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ''چین اور بھارت کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے ‘‘ لیکن ہم نے مودی بھائی سے خواہ مخواہ ماتھا لگا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سینیٹ کا الیکشن ہوا جہاں پیسے چلے‘‘ جنہوں نے چھانگا مانگا کی یادیں بھی تازہ کر دیں۔ آپ اگلے روز ماڈل ٹائون میں کارکنوں کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
خشک روٹی توڑنی ہے، سرد پانی چاہیے
کیا کسی گرجے کی کنڈی کھٹکھٹانی چاہیے (احمد جہانگیر)
سپیس شپ کا مسافر حسین ہو شاید
خدا زمین کا پہلا مکین ہو شاید
نظر زبان ہو اشاروں کی کائنات میں اور
دماغ جھوٹ کی پہلی مشین ہو شاید (مژدم خان)
رنگ میں بھیگ کر کپاس تری
کھلکھلاتی تھی آس پاس کہیں
کن درختوں کا تجھ پہ سایہ تھا
پائوں میں بچھ رہی تھی گھاس کہیں (افضال نوید)
ہماریں آنکھیں الگ تھیں، ہمارے خواب الگ
اسی لئے ہمیں سہنا پڑے عذاب الگ
چھپا رہا ہوں میں چہرے کو تیری دہشت سے
مرا نقاب الگ ہے ترانقاب الگ 
یہ لوگ سوچ بنا زندگی گزار گئے
ہمیں تو فکر کا دینا پڑا حساب الگ (زبیر قیصر)
یہ لوگ کیوں پلٹ آتے ہیں گھر کو شام
اے دوست کچھ نہ کچھ پس دیوار وبام ہے (نور جوئیہ)
مرا مکان، مری ذات اور تنہائی
یہ تین لوگ ہیں اک دوسرے میں رہتے ہیں (سدرہ سحر عمران)
اونچے پربت مرے کھلونے تھے
گھر کی دیوار سے گرا ہوں میں (نوید ملک)
میرا لاشہ اٹھائے جاتے تھے
اور وہیں سے گزر رہا تھا میں (طارق جاوید)
آج کا مقطع
میں ایک قطرے کو دریا بنا رہا ہوں‘ظفرؔ
اور اس کے بعد اسے میں نے پار کرنا ہے

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں