میرے ساتھ اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''میرے ساتھ اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے‘‘ کیونکہ جیل کو تو میں کچھ نہیں سمجھتا کہ جاتے ہی بیمار پڑ جائوں گا اور کسی اچھے ہسپتال میں ڈیرے ڈال لوں گا۔ لیکن اگر پیسے واپس کرنا پڑے تو مشکل پیش آئے گی۔ اگرچہ اس کا بندوبست بھی میں نے کر رکھا ہے کہ اپنے نام اب کچھ باقی رہنے ہی نہیں دیا۔ تاہم برخورداران بھی اگر یکطرفہ طور پر سزا ہوتے ہیں تو اس کا بندوبست انہیں خود کرنا چاہئے کہ وہاں پر واقع جائیداد کو بچا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ''اتنے ووٹ دو کہ پارلیمنٹ جا کر نا اہلی کا فیصلہ ختم کر دیں‘‘ اور نا اہلی ختم کروانے سے بڑی ووٹ کی عزت اور کیا ہو سکتی ہے۔ لیکن جس رفتار سے پرندے اڈاریاں مار رہے ہیں اور جیل جانے کے بعد جو صورتحال پیدا یہ سارا کچھ خواب و خیال ہی لگتا ہے، ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''چیئرمین نیب کے معاملے پر پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘ لیکن چیئرمین نیب بھی پیچھے ہٹتے نظر نہیں آتے۔ آپ اگلے روز ملتان میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز شریف کی قیادت قبول کرنے کا اعلان کرتا ہوں: جاوید ہاشمی
بزرگ سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ''میں نواز شریف کی قیادت قبول کرنے کا اعلان کرتا ہوں‘‘ اگرچہ اب صورتحال یہ ہے کہ نواز شریف کے پاس صرف قیادت ہی رہ جائے گی اور وہ میری طرح کتاب ہی لکھ رہے ہوں گے جس کا عنوان ہونا چاہئے ''میں انقلابی ہوں عُرف مجھے کیوں نکالا‘‘ تاہم کتاب لکھنے کا انہیں بھی اتنا ہی فائدہ ہو گا جتنا مجھے ہوا تھا اور اب جا کر ان کی قیادت قبول کرنا ایک مرا ہوا سانپ ہی گلے میں ڈالنے کے مترادف ہے اور ایسا لگتا ہے کہ میں ان کے کتاب کی پروف ریڈنگ کے علاوہ اور کوئی خدمت سرانجام نہیں دے سکوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ''ایسا لیڈر کبھی نہیں دیکھا‘‘ جو اتنا کچھ کرنے اور اس کا نتیجہ دیکھنے کے بعد بھی اپنے آپ کو لیڈر سمجھتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ ''نواز شریف میرے لیڈر تھے اور رہیں گے‘‘ ماسوائے ان آٹھ نو برسوں کے جب میں تحریک انصاف میں تھا اور بعد میں مسلم لیگ میں شمولیت کا انتظار کرتا رہا۔ آپ اگلے روز ملتان میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
عالمی دبائو پر کسی کو بھی دہشت گرد قرار دینے
کا قانون پاس ہونے والا ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عالمی دبائر پر کسی کو بھی دہشت گرد قرار دینے کا قانون پاس ہونے والا ہے‘‘ جس کا مطلب ہے کہ آزمائش کا وقت آنے والا ہے کیونکہ کافر عالمی حکومتیں ہمارے بارے بھی کچھ اچھے خیالات نہیں رکھتیں اور جس کی لپیٹ میں بہت کچھ آ سکتا ہے؛ چنانچہ ان کے خلاف بد دعائوں کی تحریک چلانے کے بارے سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے کیونکہ یہ ہم غریبوں کے ٹھوٹھے پر ہی ڈانگ مارنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''اگر سستی اور غفلت ہے تو صرف اسلامی قوانین کے نفاذ میں ہے‘‘ چنانچہ ہم سب کو اپنی اپنی جمع پونجی سمیٹ کر نئے پاس ہونے والے قانون کے خلاف کمرِ ہمت کس لینی چاہئے کیونکہ دہشت گرد تو وہ ہو گا جسے ہم دہشت گرد سمجھیں۔ آپ اگلے روز مسلم انکلیو میں جامع مسجد کے افتتاخ کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔
سر سے پائوں تک کرپشن میں لتھڑے
احتساب کی بات کر رہے ہیں: شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''سر سے پائوں تک کرپشن میں لتھڑے احتساب کی بات کر رہے ہیں‘‘ کیونکہ احتساب کے شکنجے میں جو آئے ہوئے ہیں تو انہیں احتساب ہی کی بات کرنی چاہئے کہ یہ صرف انتقامی کارروائی ہے حالانکہ انتقام لینے کا حق صرف عوام کے پاس ہے جنہوں نے اگر اسے کبھی استعمال نہیں کیا تو یہ بات ان سے پوچھنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ''عوام نام نہاد تبدیلی کے دعویداروں کو مسترد کر دیں گے‘‘ اور صرف 'سٹیٹس کو‘ کے دعویدار شرفا کو کامیاب کرائیں گے جس کے وہ عادی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''مسلم لیگ ن کی کارکردگی سب کے لئے رول ماڈل ہے‘‘ کہ بے حساب خدمت کے ساتھ ساتھ مقدمات میںشہرت بھی ملتی ہے جبکہ پانامہ کیسز سے پہلے یہ کافی گمنامی کی زندگی گزار رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''زرداری اور عمران نے اپنے صوبوں کا حلیہ بگاڑ دیا‘‘ جبکہ ہم نے صرف عوام کا حلیہ تبدیل کیا ہے اور وہ اپنے آپ کو پہچاننے سے ہی قاصر ہیں۔ آپ اگلے روز منتخب رہنمائوں سے ملاقات کر رہے تھے۔ اور اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
اگر کوئی ارادہ باندھتے ہیں
تو پہلے تھوڑا تھوڑا باندھتے ہیں
ہمیں سامان سارا باندھنے دو
کہ یہ ہم تم سے اچھا باندھتے ہیں
اگر باندھا ہوا کھل جائے اپنا
تو پھر اس کو دوبارہ باندھتے ہیں
ہمیں پانی سے خوف آتا ہے اکثر
جو ہم دریا کو صحرا باندھتے ہیں
پتا چلتا نہیں کوئی ہمارا
کہ ہم کیا کھولتے، کیا باندھتے ہیں
کہ کوشش کرکے خود ہو جائے سیدھا
جو ہم سیدھے کو الٹا باندھتے ہیں
کسی مہمان کی ہو آمد آمد
تو دروازے پہ کتا باندھتے ہیں
بہت خوب افترا باندھا ہے تم نے
یہ ہم بھی اچھا خاصا باندھتے ہیں
ظفر اپنی نظر میں ایک ہیں یہ
گدھا گھوڑا اکٹھا باندھتے ہیں
آج کا مطلع
کچھ ضروری نہیں دکھائی دے
اس کی آواز ہی سنائی دے